مفتی محمد عطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھ رہا ہے نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں پہلے دولہا خود چل کر لڑکی کے گھر جاتا اور لڑکی کو بیاہ کر لاتا تھا، اب سب کچھ آن لائن ہوگیا ہے، تعلیم سے لیکر کاروبار تک ، ملازمت سے لیکر تعلم تک سب کچھ آن لائن ہوگیا ہے، ورک فروم ہوم کی سویدھا ہر جگہ اویلیبل ہے، اسی لائن میں اب “ نکاح فروم ہوم” بلکہ “نکاح فروم جاب “ہورہے ہیں،
اکثر یا بعض حضرات ویڈیوکانفرنسگ کے ذریعہ اسطرح نکاح کرتے ہیں مثلا لڑکا سعودیہ میں ہے وہ وہیں سے انڈیا میں کسی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، تو مثلا ایک مجلس میں لڑکی کی طرف سے وکیل اور دوگواہ موجود ہوتے ہیں اور اُدھر سے ویڈیو کال پر لڑکا موجود ہوتا ہے، نکاح پڑھانیوالا وکیل اور گواہوں کی موجودگی میں لڑکے سے کہتا ہے کہ فلاں بنت فلاں کا نکاح میں نے اتنے روپئے مہر کے عوض آپ سے کیا، کیا آپ نے قبول کیا؟ تو لڑکا فون پر ہی قبول کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قبول کیا !
تو یاد رکھئے اسطرح فون پر نکاح نہیں ہوتا،
شریعت نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہو اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا بنفسِ نفیس یاان کے وکیل کا موجود ہونا شرط اورضروری ہے، نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے۔ اور اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کریں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔ پھر نکاح کی جس مجلس میں فریقین بنفسِ نفیس شریک ہوں تو وہ مجلس حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے اور جس مجلس میں فریقین میں سے ایک یا دونوں کی جانب سے وکیل ہوں تو وہ حکماً مجلس کے حکم میں ہے۔
موجودہ دور میں ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے انعقاد کی جو صورت اختیار کی جاتی ہے اس میں مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے کیونکہ لڑکا لڑکی دونوں نہیں ہیں اور نہ ہی حکماً، کیونکہ دونوں کے وکیل ایک ہی مجلس میں نہیں ہیں، نہ ایسا ہے کہ لڑکا لڑکی میں سے کوئی ایک اور دوسرے کا وکیل اس مجلس میں ہو، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ لہذا ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح منعقد کرنا درست نہیں ہے۔
دیکھئے شامی
ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین…
(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً”.(کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)
علامہ شامی فرماتے ہیں
نکاح کی صحت کے شرائط میں ایجاب وقبول اور مجلس کا ایک ہونا ہے، اور بحرالرائق میں ہے کہ اگر مجلس الگ الگ ہو تو نکاح منعقد نہ ہوگا،
اسی طرح النہرالفائق میں ہے
واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر”. (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)
فرماتے ہیں کہ ایجاب وقبول کی کچھ شرطیں ہیں، ان ہی میں سے ایک اتحاد مجلس ہے اگر مجلس الگ الگ ہو متعاقدین کی ، تو نکاح منعقد نہ ہوگا،
اب ہم دیکھتے ہیں مروجہ نکاح میں کہ جس جگہ ویڈیو کال پر نکاح ہورہا ہے اس مجلس میں لڑکی نہیں ہے اسکا وکیل ہے ( وکیل اپنے موکل کا نائب ہوتا ہے تو سمجھا جائیگا کہ لڑکی ہی موجود ہے) اور اس مجلس میں لڑکا نہیں ہے نہ لڑکے کا وکیل ہے، لڑکا تو دوسرے ملک یا شہر میں ہے تو یہاں ایجاب وقبول میں اتحاد مجلس نہیں پایاجارہاہے، اگر لڑکے کی طرف سے وکیل قبول ہوتا تو یہ وکیل موکل کے قائم مقام ہوجاتا اب یہ مجلس نکاح میں اپنے موکل کی طرف سے قبول کرتا تو نکاح درست ہوجاتا اسلئے کہ اب ایجاب وقبول ایک ہی مجلس میں ہورہے ہوتے،
فقہ کی تمام کتب مثلا “شامی، البحرالرائق، فتح القدیر، بدائع الصنائع، مبسوط سرخسی، فتاوی ہندیہ، النہرالفائق وغیرہ میں ایسا ہی لکھا ہے، سب کی عبارات نقل کرنے سے مضمون لمبا ہوجائیگا،
یہی موسوعہ فقہیہ الکویتیہ میں ہے،
یہی دارالعلوم دیوبند، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن (پاکستان) کا فتوی ہے،
خلاصہ پورے کا مضمون کا یہ ہوا کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیےعاقدین (لڑکا اور لڑکی) یا ان کی طرف سے مقرر کردہ وکیلوں کے ایجاب و قبول کی مجلس کا ایک ہونا ضروری ہے، اور یہ بھی شرط ہے کہ ایجاب وقبول کو دو ایسے گواہوں نے بلا کسی اشتباہ وتلبیس کے سنا ہو ،جو خود مجلس عقد میں موجود ہوں، تاکہ وہ بوقت ضرورت گواہی دے سکیں، جبکہ ٹیلی فون اور ویڈیو کال پر نکاح میں مجلس کے ایک ہونے کی شرط کے مفقود ہونے کے ساتھ ساتھ تلبیس واشتباہ کے کافی مواقع موجود ہوتے ہیں، اور مختلف مناظر کو مصنوعی طریقے پر ایک دوسرے سے منسلک کرنا بھی ممکن ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں نکاح منعقد نہیں ہوا،
لہذا ٹیلی فون پر نکاح کے جواز کی صورت یہ ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو یا اسکے وکیل کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل دو گواہوں(یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریق اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق یا اسکا وکیل اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحاد مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
صاحب بدائع علامہ کاسانی فرماتے ہیں
“ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل” (البدائع الصنائع ، ج : 2 ، ص: 487 )
یعنی نکاح جسطرح اصالة منعقد ہوجاتا ہے ایجاب قبول سے اسی طرح وکالت اور نیابت سے بھی منعقد ہوجاتا ہے،
ایک اشکال ہوتا ہے کہ فقہ کی کتاب شامی میں بدائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ خط کے ذریعہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے، یعنی کسی نے مثلا مرد نے عورت کو یا عورت نے مرد کو خط لکھا کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا/چاہتی ہوں، پھر مرد/عورت نے ایک مجلس منعقد کی اور اس خط کو اہل مجلس کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ میں نے اس سے اپنا نکاح کردیا تو نکاح ہوجاتا ہے، اسی طرح ویڈیو کالنگ پر نکاح ہوجانا چاہئے کیونکہ آجکل کے خطوط فون ایمیل وغیرہ ہیں،
اسکا جواب یہ ہے کہ پہلے شامی اور بدائع الصنائع کی عبارت مکمل پڑھئے سمجھ کر پڑھئے
“ثم النکاح کما ینعقد بھذہ الالفاظ بطریق الاصالة ینعقد بھا بطریق النیابة بالوکالة والرسالة (البدائع الصنائع ، ج : 2 ، ص: 487 )
یعنی نکاح جس طرح الفاظِ نکاح سے اصالۃً منعقد ہوتا ہے اسی طرح وکیل یا خط کے ذریعہ نائب بنانے سے بھی منعقد ہو جاتا ہے ۔
اسمیں ہے کہ خط کے ذریعہ نائب بنانے سے منعقد ہوگا خط کے ذریعہ ایجاب وقبول کرنے سے نہیں، اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ خط کے ذریعہ کسی کو اپنے نکاح کا وکیل اور نائب بنایا جاسکتا ہے، یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ خط کے ذریعہ سے ایجاب وقبول درست ہوجاتا ہے، اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، خط کے ذریعہ نائب بنانے کا مطلب یہ ہیکہ مثلا لڑکا لڑکی کو لکھے کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں گویا وہ اسکو اپنا نائب اور وکیل بنا رہا ہے کہ تم میرا نکاح اپنے سے کرلو، اب یہ لڑکی اس لڑکے کی طرف سے وکیل ہوگی اور اپنی طرف سے اصیل ہوگی اب یہ ایک مجلس میں دوگواہوں کی موجودگی میں اپنا نکاح اس لڑکے سے کرلے گی، تو یہاں تو ایجاب وقبول ایک ہی مجلس میں پایا گیا ہے نا؟ ایجاب لڑکے کی طرف سے تھا جسکو لڑکی نے اسکا نائب ہونے کی حیثیت سے ادا کیا اور قبول اسی لڑکی کی طرف سے تھا جسے اس نے اصیل ہونے کی حیثیت سے قبول کیا ہے، اور ویڈیو کالنگ میں لڑکا فون پر کسی کو اپنا نائب اور وکیل نہیں بنا رہا ہے بلکہ وہ تو خود اصیل بنکر دور سے قبول کررہا ہے، تو اسکو خط پر قیاس کرنا درست نہیں ہوگا،
(یاد رہے کہ نکاح میں ایک ہی شخص کا اپنی طرف سے اصیل اور دوسرے کی طرف سے وکیل بننا جائز ہے،)
امید ہیکہ مسئلہ واضح ہوگیا ہوگا،
واللہ الموفق وھو المستعان
رب اشرح لی صدری ویسرلی امری واحلل عقدة من لسانی یفقھوا قولی
Comment: 1
sayyedamirrizvi6
July 24, 202211:39 pmMashaallah