ہندوستان کا قومی جھنڈا “ترنگا” کس نے ڈیزائن کیا؟
مفتی محمد عطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ اکرام نگر موانہ ضلع میرٹھ یوپی الہند
قومی پرچم ترنگے کی تاریخ کے بارے میں ہمیشہ سے بحث رہی ہے کہ اس پرچم کو کس نے ڈیزائن کیا؟ کچھ لوگ پنگالی وینکیا کا نام لیتے ہیں ، کچھ لوگ اینی سینٹ کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ترنگا جھنڈے کے موجودہ ڈیزائن کو تیار کرنے کا کام بدرالدین طیب جی (آئی سی ایس) کی اہلیہ ثریا طیب جی نے کیا تھا۔ اس کا ڈیزائن کسی پنگالی وینکیا یا اینی سینٹ نے تیار نہیں کیا،
ہندوستانی حکومت کے پاس سرکاری طور پر ترنگے جھنڈے کی تاریخ دستیاب نہیں ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ اس جھنڈے کا ڈیزائنر کون ہے؟
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ حکومت ہند یا ہندوستانی مورخوں کے پاس خود کے قومی پرچم کی تاریخ بھلے ہی موجود نہ ہو، لیکن
ایڈن برگ میں رہنے والے جنگ اور سلطنت کے مورخ کی حیثیت سے دنیا بھر میں مشہور ٹریور رائل (Trevor Royle) کے مطابق ہندوستان میں اس وقت جس جھنڈے کی پرچم کشائی کی جاتی ہے اس کا ڈیزائن بدرالدین طیب جی نے کیا تھا۔ ٹریور رائل نے یہ بات اپنی کتاب ’دی لاسٹ ڈیز آف راج‘ میں لکھا ہے۔ ان کی یہ کتاب 1989 میں شائع ہوئی تھی۔ ٹریور رائل کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔
بعض کہنے والے کہتے ہیں کہ ڈیزائن تیار کرنیوالی ثریا طیب جی ہیں جو بدر الدین طیب جی کی اہلیہ تھیں، بدرالدین طیب جی خود ایک انڈین سول سروس آفیسر تھے۔ بعد میں 1962 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ اس کے بعد جاپان میں ہندوستانی سفیر بنے۔ جواہرلال نہرو کے خاص دوستوں میں سے تھے اور ان سے کافی گہرے مراسم تھے۔
بدرالدین طیب جی ( پیدائش 10 اکتوبر 1844 – وفات 18 نومبر 1939 ) ایک برطانوی آزادی کی تحریک کے ایک ہندوستانی وکیل ، کارکن اور سیاست دان تھے۔ وہ انگلینڈ جانے اور بیرسٹر بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ وہ ممبئی ہائی کورٹ کے پہلے بیرسٹر ہندوستانی جج تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے بانی ممبر ، تیسرے صدر اور پہلے مسلم صدر تھے۔
ثریا طیب جی حیدرآباد دکن کی ممتاز شخصیت سر اکبر حیدری کے خاندان سے تعلق ر کھتی تھیں ۔ محترمہ ثریا طیب جی نے جہاں ملک کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں اپنی پینٹنگز کے ذریعہ لوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتی رہیں ۔ وہ ایک بہت اچھی مصور بھی تھیں ،
بتایا جاتا ہے کہ بدرالدین طیب جی نے ہی قومی پرچم کے ڈیزائن کو بنایا تھا اور اس میں اشوک کے دھرم چکر کو بیچ میں رکھا تھا۔ بعد ازاں ان کی بیگم ثریا طیب جی نے اس کی پہلی کاپی تیار کی جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخی رات کو اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی کار پر لہرایا گیا۔
کیا کہتی ہیں ثریا طیب جی کی بیٹی؟
ثریا طیب جی کی 73 سالہ بیٹی پدم شری لیلا طیب جی نے سال 2018 میں ’دی وائر‘ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد بدرالدین طیب جی نے نہرو کے ہدایت پر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی سربراہی میں فلیگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بدرالدین طیب جی اس وقت بطور آئی سی ایس آفیسر وزیر اعظم کے دفتر میں کام کر رہے تھے۔
لیلا طیب جی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے ہی نہرو کو اشوک کے چکر کا نہ صرف خیال دیا بلکہ والدہ نے جھنڈے کا تصویری نقشہ بھی کھینچا۔ اس مضمون میں لیلا طیب جی کے الفاظ کے مطابق میرے والد نے پہلی بار قومی پرچم کو دیکھا۔ اسے میری ماں کی نگرانی میں دہلی کے کناٹ پیلیس میں واقع ایڈی ٹیلرز اینڈ ڈریپرس سے سلوایا گیا تھا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ انڈین ترنگا جھنڈا ثریا طیب جی اور انکے شوہر بدرالدین طیب جی کی دین ہے،
بدرالدین طیب اور بیگم ثریا، دونوں منکسرالمزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے کبھی بھارتی قومی جھنڈے کی تشکیل میں اپنے کردار کو نمایاں نہیں کیا۔ مگر مغربی مورخین سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکی کہ ہندو اکثریتی مملکت کا قومی جھنڈا تیار کرنے میں ایک مسلمان جوڑے نے اہم حصہ لیا۔
ان مورخین میں مشہور برطانوی مورخ، ٹریور رائل (Trevor Royle)بھی شامل ہے۔ ٹریور رائل نے ’’برٹش راج کے آخری دن‘‘ (The Last Days of the Raj) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو پہلی بار 1989ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اب نایاب ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تیاری میں ٹریور رائل نے بھارت کے سبھی ممتاز سیاسی راہنماؤں، دانشوروں اور ادباء سے انٹرویو کیے۔ اسی کتاب میں ٹریور نے ذکر کیا ہے کہ بھارت کے قومی جھنڈے کو آخری اور معین شکل ایک مسلمان جوڑے، بدرالدین فیاض اور بیگم ثریا نے دی تھی۔ مسٹر ٹریور کی رو سے یہ بھارتی تاریخ کی عجیب بوالعجبی ہے۔
22 جولائی 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جس کمیٹی نے قومی پرچم پیش کیا وہ 74 خاتون ارکان پر مشتمل تھی جن میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو ، زہرہ انصاری ، زرینہ کریم بھائی ، سکینہ نعمانی ، قدسیہ عزیز رسول ، شریفہ حامد علی ، عائشہ احمد ، اندرا گاندھی اور خود ثریا طیب جی جیسی خواتین شامل تھیں
1921
میں پنگالی وینکیا کی جانب سے قومی پرچم کا جو ڈیزائن پیش
کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ موجودہ قومی پرچم سے بالکل مختلف تھا ۔ واضح رہے کہ ثریا طیب جی نے 1916 میں مہاتما گاندھی کو قومی ترنگے کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 30 ڈیزائن پیش کئے تھے اور بالاخر ان کے تیار کردہ ڈیزائن کو ہی منظور کیا گیا اور آج 15 اگست ہو یا 26 جنوری لال قلعہ راشٹرپتی بھون ، سرکاری دفاتر کی عمارتوں ، اسکولوں ، کالجوں اور گلی گلی میں ثریا طیب جی کا ڈیزائن کردہ ترنگا لہرا جاتا ہے ۔
بھارت میں مشہور ہے کہ آندھرا پردیش کے ایک کانگریسی لیڈر،پنگالی وینکایہ (1876ء۔ 1963ء) نے قومی پرچم ڈیزائن کیا تھا۔مگر تاریخی حقائق سے یہ امر سامنے نہیں آتا۔1935ء میں آل انڈیا کانگریس نے ممتاز مورخ،ڈاکٹر بھوگاراجو پتھبی ستیارامایہ (1880ء۔1959ء) سے جماعت کی تاریخ لکھوائی تھی جو 890صفحات پہ مشتمل صخیم کتاب ہے۔ستیارامایہ کا تعلق بھی آندھرا پردیش سے تھا مگر انھوں نے پنگالی وینکایہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
اسی طرح 1957ء میں جنگ آزادی 1857ء کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر بھارتی حکومت نے الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ممتاز مورخ،ڈاکٹر تارا چند کو یہ ذمے داری سونپی کہ تحریک آزادی ہندوستان کے مجاہدوں کی تاریخ مرتب کریں۔تارا چند کی مرتب کردہ چار جلدوں پہ مشتمل یہ تاریخ مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں بھی پنگالی وینکایہ کا ذکر موجود نہیں۔ تب تک تو یہ بات عام ہو جانی چاہیے تھی کہ انھوں نے ہی قومی پرچم ڈیزائن کیا۔غیر جانب دار مورخین کی رو سے ہندو قوم پرست یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ بھارت کے قومی پرچم کو ایک مسلم جوڑے نے آخری اور قطعی شکل دی۔چناں چہ منصوبہ بندی کے تحت قوم پرست مورخین کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ قومی پرچم پنگالی وینکایہ نے ڈیزائن کیا تھا۔اس جھوٹ کا ایسا پروپیگنڈا کیا گیا کہ بھارت میں ناخواندہ اور تعلیم یافتہ ہندو ،سبھی اس کو سچ سمجھنے لگے۔
افسوس کہ متعصب ذہنوں نے جن کے دل فرقہ پرستی کے زنگ آلودہ ہیں ۔ مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی قربانیوں و کاوشوں کو جان بوجھ کر قوم کی نظروں سے دور کردیا تاکہ انہیں اپنے بغیر سیاسی مفادات کی تکمیل میں آسانی ہو ،


آر ایس ایس اس قومی پرچم کے خلاف تھی
دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے اور نکڑ ناٹک تحریک کے سربراہ شمس الاسلام اپنی کتاب ’آر ایس ایس کو پہچانیں‘ میں ایم ایس گولوالکر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کی حیثیت سے 14 جولائی 1946 کو ’گرو پورنیما‘ کے موقع پر ناگپور کے ایک جلسے میں صاف طور پر کہا کہ ’صرف بھگوا جھنڈا ہی مجموعی طور پر عظیم ہندوستانی تہذیب کی علامت ہے۔‘ گولوالکر نے یہ بھی اعلان کیا کہ ’ہماری عظیم تہذیب کا مکمل تعارف دینے والی علامت ہمارا بھگوا جھنڈا ہے جو ہمارے لیے بھگوان کی طرح ہے۔۔۔‘
آزادی کے بعد جب ترنگا قومی پرچم بن گیا تب بھی آر ایس ایس نے اس کو اپنانے سے صاف انکار کیا۔ گولوالکر نے قومی جھنڈے کے موضوع پر اپنے مضمون ’پتن ہی پتن‘ میں لکھا: ’ہمارے لیڈروں نے ہمارے ملک کےلیے ایک نیا جھنڈا تجویز کیا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تباہی کی طرف بہنے اور نقلچی پن کا واضح ثبوت ہے۔‘
یہی نہیں آر ایس ایس نے 14 اگست 1947 کو اپنے انگریزی ترجمان اخبار ’آرگنائزر‘ میں قومی پرچم پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’جو لوگ قسمت کی چال سے حکمراں بن بیٹھے ہیں وہ بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگے کو تھما دیں، لیکن ہندو اسے نہ کبھی اپنائیں گے اور نہ کبھی اس کی عزت کریں گے،
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1929 میں لاہور کے ادھویشن میں کانگریس نے یہ طے کیا کہ اگلے سال سے ہم 26 جنوری پر ترنگا لہرائیں گے اور اسے سلامی دیں گے۔ اعلان کے مطابق ترنگے کے دیوانے اگلے سال 26 جنوری کو ترنگا لے کر نکل پڑے ،تو انہیں دو طرفہ مظالم جھیلنے پڑے، ایک انگریز تو تھا ہی دوسری طرف میسور کا راجہ جو ساورکر کا دوست اور ہندو مہا سبھا کا فائناسر تھا۔اس نے چالیس ترنگا پریمیوں کو شہید کردیا۔ آر ایس ایس کے آیڈیو لاگ ساورکر نے ان کی شہادت پر جشن مناتے ہوئے کہا ہے کہ سیڈو نیشنلسٹ کو سبق سکھایاگیا اور ہیڈگوارکی طرف سے ایک سرکلر نکالاگیاکہ چھ بجے سنڈے کے دن 26 جنوری کو ہم ترنگے کی جگہ بھگوا پھہرائیں گے اور سنگھیوں کو جب بھی موقع ملا تو انہوںنے ایسا کیا بھی ، ہال ہی میں راجستھان میں کورٹ پر جس پرچم کو انہوںنے پھہرایا وہ بھگوا ہی تھا ۔ ۱۷ جولائی 1947 کو آر ایس ایس کی طرف سے کہاگیا کہ ہم اس بات سے مطمئن نہیں کہ قومی پرچم سبھی جماعتوں کو قبول ہونا چاہئے ۔ جھنڈا راشٹر کی علامت ہےا ور ملک میں صرف ایک ہی راشٹر ہے ، ہندو راشٹر۔ جس کی لگاتار پانچ ہزار سال کی اپنی تاریخ ہے، جھنڈا صرف اسی راشٹر کی نمائندگی کرنا چاہئے۔ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ایسے جھنڈے کومنتخب کریں جو سبھی جماعتوں کی خواہشتات کی تکمیل کرے، ہم جھنڈے کو اس طرح نہیں چن سکتے جس طرح ایک درزی کو کپڑا یا کوٹ تیار کرنے کو دیتے ہیں۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ترنگے کی تاریخ کو جانیں اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہوئے ہر موقع پر اس کو پھہرائیں بھی ۔ اگر ہمیں وہ لوگ ترنگا پھہرانے کی نصیحت دیں گے جنہوں نے 52 سالوں تک اپنے ہیڈ کوارٹر پر ترنگا نہیں پھہرایا اور جب 2001 میں تین نوجوانوں نے ناگپور میں ان کے دفتر پر ترنگا پھہرایا ،تو ان کے خلاف انہوںنے مقدمہ بھی قائم کرایا ، تو ہمیں ایسے لوگوں کوآئینہ بھی دکھانا ہے اور ان کو ان کے راشٹر واد کی سچائی تاریخی حوالوں سے بتانی ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا ہے کہ ہیڈ گیوار جب جیل گئے تھے ،تو وہ کانگریس کے کارکن تھے اور ساوکر تو معافی مانگ کر ویر بن گئے ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ جب بھی گلستاں کو خون کی ضرور ت پڑی تو گردن ہمارے ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر کٹائی ہے ۔ بطخ میاں انصاری جنہوں نےانگریزوں کے ظلم سے اجڑ جانا گنوارا کیا، لیکن گاندھی کو زہر دینا گنوارا نہیں کیا ،
گاندھی نے مندروں پر ترنگا لہرانے سے منع کیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کے وقت جو ہندتوا وادی قومی پرچم کی مخالفت کر رہے تھے انہوں نے آزادی کے پہلے ملک میں ہندو مسلمان فساد کرانے میں چرخا بنا ہوا قومی پرچم کا ہی استعمال کیا۔ یہ بالکل ٹھیک ویسے ہی تھا جیسے آج ترنگے کے نام پر ملک کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔
مہاتما گاندھی قومی پرچم کے مندروں میں یا مذہبی استعمال کے سخت خلاف تھے۔ گاندھی نے اپنی زندگی میں کئی ایسے مضامین اور خطوط لکھے جس میں ہندتوا وادی نیتاؤں کو قومی پرچم کے غلط استعمال کے لیے پھٹکار لگائی گئی۔
گاندھی جی نے 29 مئی 1941 کو ریاست میسور کے شموگا کے ہندو مہاسبھا کے وزیر کو ایک خط میں لکھا۔ ’میں جانتا ہوں کہ گنپتی اتسو کے جلوسوں میں قومی جھنڈے کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مندروں پر قومی پرچم لہرایا جارہا ہے، یہ غلط ہے۔ کانگریس ایک قومی ادارہ ہے اس کے دروازے ذات پات اور مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ کانگریس کو ہندو مذاہب کے تہواروں سے اتنا ہی کم یا زیادہ مطلب ہے، جتنا کہ کسی دوسرے مذاہب کے تہواروں سے۔
گاندھی جی نے اس سے پہلے 5 نومبر 1938 کو ہریجن میں اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا تھا – “قومی پرچم اور اس کی موجودہ تخلیق کی اصل تخیل کے باپ کی حیثیت سے مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور لوگ اپنے پُرتشدد رجحانات کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں قومی جھنڈا عدم تشدد کی علامت ہے، اس کے ساتھ شائستگی بھی جڑی ہونی چاہئے۔ آج دیش بھکتی کے نام پر جھنڈے کے نام پر ملک کی آڑ میں اہل وطن کو خاص طور سے مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے، زبردستی مسجد مندر مدرسہ اسکول پر جھنڈا لہرانے کی بات کیجاتی ہے، آخر کیوں؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ کیسی دیش بھکتی ہے؟ کہ دیش کے باسیوں پر ظلم وجبر روا رکھا جائے؟
ترنگا میں چار رنگ ہیں انکا مطلب بھی الگ الگ ہے

سدن جھا سے ہفت روزہ دعوت کی طویل گفتگو میں دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ قومی پرچم ترنگے میں تین نہیں بلکہ چار رنگ ہیں۔ وہ سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ اپنے قومی پرچم کو ہم تین رنگوں کا جھنڈا کیوں کہتے ہیں؟ جب ہم ہندوستان کے قومی پرچم میں رنگ کی وضاحت کرتے ہیں تو ہمارے علمی فریم سے اشوک چکر کا نیلا رنگ کیوں مٹ جاتا ہے؟
ہندوستانی پرچم کا اوپری پینل بھگوا رنگ کا ہے۔ اس کو قصریہ بھی کہا جاتا ہے ، اس رنگ کا مطلب تیاسی ، قربانی ، ہمت اور ناپیدگی ہے۔
flag ہندوستانی پرچم کا درمیانی پینل سفید ہے۔ سفید رنگ امن ، پاکیزگی ، اور سچائی کا مطلب ہے۔
t ہندوستانی ترنگا کا سب سے نیچے والا پینل سبز رنگ کا ہے جو خوشحالی ، زندگی ، اور متحرک ہے۔
پھر وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ قومی پرچم کا نیلا رنگ بغاوت اور دلت سیاست کا رنگ ہے۔ نوآبادیاتی دور کی مقبول یادوں میں نیلا رنگ مزاحمت کا رنگ ہے۔ یہ 60-1859 میں بنگال میں انڈگو پلانٹروں کے خلاف کسان بغاوت اور پھر اس کے بعد چمپارن میں چلے “انڈگو موومنٹ” کی سیاسی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ رنگ جو کہ جھنڈے کے مرکز میں ہے ان باغی کسانوں کے لیے ایک بہترین خراج تحسین ہے,
یہ بات یقیناً سوچنے کے قابل ہے کہ ہم جب بھی قومی پرچم کی بات کرتے ہیں تو ہماری بات چیت میں تین رنگوں کی ہی وضاحت ہوتی ہے لیکن نیلے رنگ کو بھلا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا دلت، پچھڑے اور کمزوروں کی آوازوں کے خلاف گہری سازش ہے؟
جھنڈے میں اشوک چکر کا مطلب؟
سفید پٹی کے وسط میں بحریہ کے نیلے رنگ اشوک سائیکل ہے جس میں 24 لکھیریں ہیں. اس چکر کا قطر تقریبا سفید پٹی کی چوڑائی کے برابر ہوتا ہے. اسکو دستور چکر کہتے ہیں.
اس شکر کو ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی متحرک ہے اور رکنے کا مطلب موت ہے. ترگے کے تینوں رنگ زعفران سفید سبز کا مطلب سکھ امن خوشحالی سے ہے.
بعض حضرات اسکا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ ہندوستانی ترنگا کے درمیانی پینل میں اشوک چکرا ہے۔ یہ مرکز میں واقع ہے ، اور یہ 24 ترجمان پر مشتمل ہے۔ اشوک چکرا یا پہیے کی نمائندگی ترقی ، دائمی ، اور راستبازی کو دوبارہ تیار کرتی ہے۔ اس پہیے کے 24 ترجمان دن کے 24 گھنٹوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جھنڈے میں اشوک چکر شیر کے دارالحکومت اشوک سے لیا گیا ہے۔ اشوک چکر دھرم کی نمائندگی کرتے ہیں ، اور اسے دھرم کا پہیے بھی کہا جاتا ہے۔ یوں ، یہ جھنڈا تمام مذاہب کو اپنے دامن میں لے جاتا ہے اور یہ ہندوستان کے تمام عقائد کی نمائندگی کرتا ہے۔
ترنگا جھنڈے کے قواعد
بھارتی پرچم 2/3 کا تناسب رکھتا ہے (جس سے پرچم کی لمبائی چوڑائی سے 1.5 گنا زیادہ ہے)۔ سبھی رنگ کی پٹیاں (زعفرانی، سفید اور سبز) لمبائی اور چوڑائی میں مساوی ہونا چاہیے۔ اشوک چکر کا ناپ ضابطۂ پرچم میں مذکور نہیں ہے، تاہم اس میں چوبیس خانے ہیں جن کے درمیان میں جگہ مساوی حد تک پھیلی ہوئی ہے،
ہندوستانی پرچم روایتی طور پر کھدی سے بنایا گیا ہے ، جو گھریلو طور پر سوتی ہوئی روئی ہے۔ یہ تانے بانے آزادی اور قوم پرستی کی علامت ہیں،
پرچم کو لے کر ہمارے ملک میں پرچم کے قوانین طے شدہ ہیں.
بھارتی قانون کے مطابق اس پرچم کے استعمال کے قواعد مقرر ہیں جو دیگر قومی علامات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عام شہری اسے صرف قومی دن جیسے یوم آزادی اور یوم جمہوری بھارت وغیرہ پر لہرا سکتے ہیں۔ سنہ 2002ء میں ایک شہری ناوین جندل کی درخواست پر بھارتی عدالت عظمی نے حکومت بھارت کو حکم دیا کہ وہ عام شہریوں کو پرچم کے استعمال میں رعایت دیں۔ اس پر کابینہ نے شہریوں کو بعض حدود میں اسے استعمال کرنے کی رعایت فراہم کی۔ 2005ء میں قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس پرچم کو کچھ خاص قسم کے کپڑوں سے تیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ ملک کا فلیگ کوڈ اس قومی پرچم کے لہرانے اور خصوصاً دیگر قومی اور غیر قومی پرچموں کے ساتھ اسے لہرانے کے اصول و ضوابط بیان کرتا ہے۔
جھنڈے کی نمائش اور استعمالات کو فلیگ کوڈ آف انڈیا 2002ء (یہ قانون فلیگ کوڈ آف انڈیا ،اصلی قانون کے بعد بنائی گئی) ،ایمبلم اینڈ نیمز (غلط استعمال پر روک) اور قومی چیزوں کی تحقیر کی روک ایکٹ 1971ء کے مطابق کی جاتی ہے۔جھنڈے کی جان بوجھ کر توہین یا اس کے وقار میں کمی کرنا یا اسے اس طرح استعمال کرنا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا قابل مواخذہ عمل ہے جس کی سزا تین سال قید ،جرمانا یا بیک وقت دونوں بھی ہوسکتے ہیں۔ سرکاری قانون کے مطابق پرچم زمین یا پانی کو نہیں چھونا چاہیے یا کسی بھی شکل میں ایک پردے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
پرچم کو جان کر الٹا نہیں لگایا جا سکتا زعفرانی پٹی کو اوپر ہونا جاہیے، کسی بھی چیز میں ڈبویا نہیں جانا چاہیے، نہ ہی اس میں کوئی چیز ڈالی جانی جاہے ما سوائے پھول کی پنکھڑیوں کے جو کو پرچم کو لہرانے سے قبل ڈالی جاتی ہیں۔ پرچم پر کچھ بھی لکھا نہیں جا سکتا۔ جب اسے باہر کھلے میں لگایا جائے تو موسمی حالات سے قطع نظر اسے ہمیشہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک لہرایا جانا چاہے۔
جھنڈے کو کبھی بھی الٹا نہیں دیکھانا چاہیے۔ جھنڈے کو عمودی رکھتے ہوئے 90 کے زاویے سے زیادہ نہیں موڑنا چاہیے نا ہی اس کے الٹ کرنے کی اجازت ہے۔ جھنڈے کو کتاب کی صورت ہونی چاہیے یعنی جیسے اوراق کو اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں پڑھا جاتا ہے اور اسے الٹ موڑنے کی صورت میں نتیجہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر نمائش کے لیے رکھے جھنڈے کی حالت خراب ہو یا پھٹا ہو یا اسے لگائے جانے والے کھمبے کی حالت بھی دگروں ہو تو اسے بھی توہین سمجھی جائے گی۔
بھارتی قانون کے مطابق عام شہری جھنڈوں کو ماسوائے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے علاوہ استعمال نہیں کرسکتے۔2001ء میں امریکا میں رہنے والے بھارتی صنعت کار نوین جندال نے اپنے دفتر میں جھنڈے کا استعمال کیا تو حکام نے یہ جھنڈا ان سے ضبط کیا اور انہیں اس حوالے سے تنبیہ کی۔ بعد میں دلی کی ہائی کورٹ میں انہوں نے ایک عوامی پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے کہا کے عوام کی جانب سے جھنڈے کو باوقار اور تعظیم سے استعمال کرنا ان کا حق ہے ،اور اس طرح وہ اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
کیس کے اختتام پر سپریم کورٹ نے جندال کی بات کی تائید کی اور حکومت کو اس حوالے سے کام کرنے کا کہا۔ کابینہ بھارت نے تب 26 جنوری 2002ء سے تمام شہریوں کو سال کے کسی بھی دن جھنڈے لہرانے کی اجازت دی اس بات پر کہ اس کا وقار مجروح نہ ہو۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ اجازت قانون کی حیثیت نہیں رکھتا جبکہ پرانے کوڈ کے حدود بھی لاگو رہیں گے، نیز جھنڈے کا ستعمال ایک اخذ کردہ حق ہے نا کہ اصل انسانی حق جو ہر شہری کو میسر ہوتے ہیں اور اسے بھی بھارتی آئین کے انیسویں ترمیم کے مطابق دیکھا جانا چاہیے۔
اصل کوڈ کے مطابق جھنڈے کا وردی،لباس یا کسی دوسری چیز پر چھاپنا منع ہے۔2005 میں حکومت ہند نے اس حوالے سے کچھ رعایتیں دیں۔ اس کے مطابق جھنڈے کو کولہوں سے نیچے یا زیرجامہ اس مقام پر چھاپنا،تکیوں پر اسے چھاپنا یا کسی دوسرے لباس پر چھاپنا منع ہے۔
خراب جھنڈو ں ٹھکانے نے لگانے کا عمل بھی فلیگ کوڈ میں شامل ہے۔ تباہ حال یا پرانے جھنڈوں کو بے ادبی کے ساتھ ختم کرنا منع ہے ؛اس کی بجائے اسے پرائیوٹ طور پر با عزت طریقے سے ختم کرنا چاہیے جس کی اول صورت اسے جلانا ہے یا اس کے علاوہ کوئی صورت ہونی چاہیے جو جھنڈے کے احترام کو ملحوظ رکھے۔
جب دو جھنڈوں کی نمائش مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انہیں پوڈیم کے پیچھے دیوار پر افقی طور پر پھیلایا جاتا ہے۔ جھنڈوں کے شروع کا حصے ایک دوسرے کی طرف ہونے چاہیے جبکہ زعفرانی پٹی اوپر ہونی چاہیے۔ پرچم کبھی بھی میز کو ڈھانپنے والے غلاف، گرجوں میں لکھنے یا گانے کے ڈیسک، پوڈیم یا عمارات اور جنگلے سے نہیں لپٹایا جانا چاہیے۔
جب کبھی بھی کسی ہال کے اندر جھنڈے کو رکھا جائے تو اسے ہمیشہ دائیں جانب یعنی ناظرین کے بائیں ہاتھ کی جانب رکھا جائے یہ مقام جھنڈے کے با اختیار ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ لہذا کسی ہال یا کسی دوسرے میٹنگ میں جھنڈے کو رکھا جائے تو اسے مقرر کے دائیں جانب رکھا جائے۔ اگر ہال میں یہ کہیں اور ہو تو اسے تمام سامعین کے دائیں جانب رکھا جائے۔ جھنڈے کو نمائش کے وقت مکمل طور پر پھیلایا جانا چائے۔ اگر جھنڈے کو پوڈیم کے دیوار پر عمودی طور پر رکھا جائے تو زعفرانی رنگ ناظرین کے بائیں جانب ہونی چاہیے۔
جھنڈے برداروں میں بھارتی پرچم کے مقام کی تصویر
اگر جھنڈا کسی جلوس یا پریڈ میں دیگر جھنڈوں کے ساتھ ہو تو پرچم کو تمام جھنڈوں کے دائیں جانب رکھا جانا چاہیے جبکہ درمیان میں ہونے کی صورت میں اسے سب سے آگے رکھا جانا چاہیے۔ پرچم کو کسی مجسمے ،یادگار یا تختی کے تقریب نقاب کشائی کے طور پر تو استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے کسی چیز کو بھی ڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پرچم کو احترام کے طور پر کبھی بھی کسی شخص کے پاس یا چیز پر ڈپ نہیں کیا جانا چاہیے اس وقت جب یہ پرچم کسی دوسرے ریاستی ،تنظیمی یا دیگر کسی پرچم کے سامنے ہو جنھیں احترام کے طور پر ڈپ کیا جاتا ہے۔ پرچم کشائی کی کسی تقریب میں جب جھنڈا حاضرین کے سامنے سے گذرے تو تمام حضرات کو ادب سے اس کا سامنا کرنا چاہیے اور اس دوران میں سب کو مستعد رہنا چاہیے۔ جبکہ باوردی لوگوں کو پرچم کو صحیح سلیوٹ پیش کرنا چاہیے۔ جب پرچم قطار سے گذرے تو اسے سیلوٹ کرنا یا مستعد رہنا چاہیے۔ کسی معزز کا بنا ٹوپی پہنے سلیوٹ دینا جائز ہے۔ پرچم کے تسلیمات کے بعد قومی ترانے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔
قومی جھنڈے کو سواری پر لگانے کا اعزاز صرف صدر،نائب صدر ،وزیر اعظم،ریاستی گورنر،ریاستی وزیر اعلیٰ،وفاقی وزراء،ارکان پارلیمان ،وفاق اور ریاستوں کے اسمبلی کے ارکان،عدالت عظمیٰ،ہائی کورٹ کے ججز،اور بری ،بحری فضائی فوج کے فلیگ آفیسر کو میسر ہے۔ جھنڈے کو گاڑی کے سامنے درمیان یا سامنے دائیں جانب لگایا جاتا ہے۔ جب کسی غیر ملکی معزز شخصیت کو حکومت سواری دیتی ہے تو پرچم دائیں جانب جبکہ غیر ملکی پرچم بائیں جانب لگائی جاتی ہے۔
قومی پرچم کو اس جہاز پر بھی لگایا جاتا ہے جس نے صدر یا نائب صدر کو دوسرے ملک لے جانا ہوتا ہے۔ قومی پرچم کے ساتھ جس ملک کا دورہ ہو وہاں کا جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے،اگر راستے میں کسی ملک میں جہاز کا پڑاو ہو تو اس صورت میں وہاں ٹھہرنے کے عرصے تک متعلقہ ملک کا جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے۔ جب صدر کا پڑاو بھارت میں ہی ہو تو پرچم کو جہاز کے اس مقام پر جہاں سے صدر نکلتے ہیں یا داخل ہوتے ہیں پر لگایا جاتا ہے ؛اسی طرح پرچم کو ریل گاڑی پر بھی لگایا جاتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ٹرین کھڑی ہو یا اسٹیشن پہنچ چکی ہو۔
جب بھارتی پرچم کو دیگر کئی غیر ملکی پرچموں کے ساتھ بھارت میں لگایا جائے تو اسے سب کے شروع میں لگایا جائے۔ جب سیدھے قطار میں جھنڈے ہوں تو بھارتی پرچم کو دائیں جانب (ناظر کے بائیں جانب) لگایا جائے جبکہ دیگر جھنڈوں کو ممالک کے نام کے حروف تہجی کی ترتیب میں رکھا جائے۔ اس موقع پر دیگر تمام جھنڈوں کے سائز برابر ہونے چاہیے جبکہ کوئی بھی پرچم کا سائز بھارتی پرچم سے بڑا نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی پرچم کو نہ صرف سب سے پہلے رکھا جائے بلکہ قطار میں موجود پرچموں میں حروف تہجی کے لحاظ سے بھی بھارتی پرچم کو رکھا جائے۔ جھنڈے کو بالمقابل رکھتے ہوئے بھارتی جھنڈے کو دائیں جانب رکھا جائے۔ لیکن جب اقوام متحدہ کا جھنڈا رکھا جائے تو اس میں رعایت ہو سکتی ہے۔
بھارتی اصول کہتے ہیں کہ جب پرچم کو اشتہاری بینروں یا غیر قومی جھنڈیوں کے ساتھ دکھایا جائے تو اسے ناظر کے دائیں جانب یا باقی تمام جھنڈوں میں سب سے اوپر دکھایا جائے یا اسے درمیان میں رکھا جائے۔ پرچم کے کھمبے کو قطار کی صورت میں سب کے درمیان میں رکھاجائے لیکن اگر دیگر تمام پرچم ایک ہی ہوں تو پرچم کو سب سے اونچا دکھا یا جائے۔
سرنگوں
پرچم سرنگوں کرنے کا مقصد سوگ کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ پرچم سرنگوں رہے گا یا نہیں،بھارتی صدر کرتا ہے جن کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ مدت کا تعین کریں کہ پرچم کتنے عرصے تک سرنگوں رہے گا۔ جب بھارتی پرچم کو سرنگوں کرنا ہو تو سب سے پہلے پرچم کو پول (لوہے کا ستون سا جس پر پرچم لگایا جاتا ہے) کے بالکل اوپر پہنچایا جاتا ہے۔ سوگ کے دن یا دنوں میں صرف بھارت کے قومی پرچم سرنگوں رہتے ہیں باقی تمام تر دیگر پرچم (جیسے پرچم وزیر اعظم،ریاستی پرچم،وغیرہ) سرنگوں نہیں کیے جاتے۔
صدر بھارت ، نائب صدر یا وزیر اعظم کی وفات پر بھارت بھر میں قومی پرچم نیم سرنگوں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مکلم پارلیمان (اسپیکر)، چیف جسٹس اور وفاقی یا مرکزی وزراء کی وفات پر ہی دہلی اور اس ریاست میں جہاں یہ عہدیدار پیدا ہوتا ہے وہاں پرچم نیم سرنگوں رہتا ہے۔ کسی گورنر یا ریاستی وزیراعلیٰ کے وفات پر بھارتی پرچم اس ریاست میں نیم سرنگوں رکھا جاتا ہے جس ریاست یا علاقے کا گورنر یا وزیراعلیٰ وفات پاگیا ہو۔
بھارتی پرچم کو کچھ مواقع پر سرنگوں نہیں رکھا جاتا ان مواقع میں یوم جمہوریہ (26 جنوری)، یوم آزادی (15 اگست) گاندھی جینتی (2 اکتوبر)، اور دیگر ریاستی تقاریب شامل ہیں ، ان کی تشکیل سے تعلق یادگار دن بھی ہیں جن کے ماسوائے ان عمارتوں سے جن کا تعلق اعلیٰ مرگ شخصیتوں سے ہو، پرچم کو سرنگوں نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ کسی میت ایک مخصوص کو عمارت سے نکال دینے کی صورت میں بھی ان عمارات پر پرچم مکمل سرنگوں رہتا ہے۔
جب کوئی بیرونی ملک سے تعلق رکھنے والا معزز شخص وفات پاتا ہے تو اس کے یوم وفات پر پرچم سرنگوں رہے گا یا نہیں اس کا فیصلہ وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے۔
جب کسی ریاستی ،فوج یا نیم فوجی دستے کا اہلکار مارا جاتا ہے تو اس کے تابوت کو بھارت کے قومی پرچم میں لپیٹا جاتا ہے، تاہم اس پرچم کو نہ تو جنازے کے ساتھ قبر میں دفنایا جاتا ہے اور نہ ہی جلایا جاتا ہے۔
No Comments