مفتی عطاءاللہ سمیعی استاذ معہدالشریعة الاسلامیہ اکرام نگر موانہ ضلع میرٹھ یوپی الہند
آج گفتگو ٹوپی سے متعلق ہے، نماز میں ٹوپی کا حکم کیا ہے؟ نماز سے باہر ٹوپی کا حکم کیا ہے؟ کیا بنا ٹوپی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ مسجد میں رکھی ٹوپیوں میں نماز کا کیا حکم ہے؟ وغیرہ وغیرہ
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن پاکستان میں ایک استفتاء داخل کیا گیا ، سوال وجواب کو من وعن سب سے پہلے پیش کردینا ضروری سمجھتا ہوں
نماز کے علاوہ عام حالات میں ننگے سر رہنا
سوال :- کیا ٹوپی اتاری جا سکتی ہے؟ اگر آدمی ٹوپی اتار دے اور صرف نماز کے وقت پہنے تو کیا گناہ گار تو نہیں ہو گا؟کیا ٹوپی پہننا سنتِ مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ؟
جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومی اَحوال
میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے؛ اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔ اور سر کاڈھانپنالباس کا حصہ ہے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کا بھی یہی معمول تھا۔بعض صحابہ کرام کا ٹوپی یا عمامہ نہ پہننا احادیث میں مذکور ہے، وہ تنگ دستی کے زمانے کی بات ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔
کبھی کبھار ننگے سرہوجاناگناہ نہیں ، البتہ مستقل طور پرننگے سررہنا شرعاً ناپسندیدہ اور خلافِ ادب ہے، اور ننگے سر رہنے کو معمول اور فیشن بنالینااسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔
زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 130):
“فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم
كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة. وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة”.
مفتی رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’سر برہنہ ہونا احرام میں ثابت ہے ،سوائے احرام کے بھی احیاناً ہوگئے ہیں ،نہ کہ دائماً چلتے پھرتے تھے‘‘۔(فتاوی رشیدیہ ،ص:590)فقط واللہ اعلم
اس سوال وجواب سے آپ نے جانا کہ نماز کے علاوہ عام حالات میں بھی ننگے سر رہنا خلاف ادب ہے اور فیشن کے طور پر ننگے سر رہنا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے،
ٹوپی مسلمان کے سر کا تاج ہے
میں کہتا ہوں کہ ٹوپی یہ ہر مسلمان کے سر کا تاج ہے، پہلے جو بادشاہ ہوتے تھے وہ ننگے سر نہیں رہا کرتے تھے بلکہ انکے سر پر تاج ہوتا تھا اسی طرح قبائل کے سردار بھی سر پر پگڑی باندھتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کو ڈھانپنا یہ بادشاہوں اور سرداروں کا طریقہ رہا ہے اور سر ڈھانپنا یہ عزت وشرافت کی نشانی سمجھاجاتا ہے تو اللہ کے رسول نے ٹوپی پہننے کی تعلیم دیکر ہر مسلمان کو گویا عزت وشرافت کی تعلیم دی ہے، اسکے سر کو تاج سے سجاکر اسکو بادشاہ بنادیا ہے،
لیکن افسوس مسلمان اس تاج کو سر سے نوچ کر پھینک دینے میں اپنی عزت سمجھتا ہے،
ہر وہ عمل جو سنت کے خلاف ہو وہ فیشن ہے، اور فیشن کے اپنانے میں مسلمان اپنی ترقی سمجھتا ہے، حالانکہ غیروں کا اور دشمنوں کا مقصد فیشن کے نام پر مسلمان کو سنت نبوی سے اور اسلام کی تعلیمات سے دور کرنا ہے،
مسجد میں رکھی ٹوپیوں میں نماز کا حکم
مسجد میں رکھی ٹوپیوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اسوجہ سے کہ وہ گندی سندی ہوتی ہیں انکی کوئی وقعت نہیں ہوتی، وہ مسجد کے ایک کونے کھدرے میں یا کوڑے دان نما بالٹی میں رکھی ہوتی ہیں اور نماز پڑھنے والا اسمیں سے اسکو نکالتا ہے اور پھر واپسی میں اسی میں پھینک کر چلتا بنتا ہے، نیز وہ میلی کچیلی بدبودار ہوتی ہیں دیکھنے میں بڑی بھدی معلوم ہوتی ہیں اور ایسے لباس میں نماز مکروہ ہوتی ہے جسکو پہن کر آدمی عام محفلوں میں بھی جانا پسند نہ کرے، تو پھر اللہ کے دربار میں کیسے ایسے گندے لباس میں جانے کو پسند کرلیتا ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو گندے کپڑوں میں نماز پڑھتے دیکھا تو اس سے معلوم کیا کہ اگر میں تمکو ان کپڑوں میں عام لوگوں کے پاس بھیجوں تو کیا جانا پسند کروگے؟ اس نے کہا نہیں ! تو حضرت عمر نے فرمایا کہ پھر اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسکے سامنے مزین ہوکر پیش ہواجائے،
“رأی عمر رضي اللہ عنہ رجلاً فعل ذلک فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟ فقال: لا، فقال عمر رضي اللہ عنہ: ”اللہ أحق أن تتزین لہ“ (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ص: ۳۵۹، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)
فتاوی شامی میں لکھا ہے کہ کام کاج کے کپڑوں میں اسی طرح جو کپڑے آدمی کے گھر میں پہننے کیلئے خاص ہوں (مثلا رات میں پہننے کے) تو انمیں نماز مکروہ ہوتی ہے
“وصلاتہ في ثیاب بذلة یلبسہا في بیتہ ومہنة أي: خدمة إن لہ غیرہا وإلا لا․ (در مختار مع شامي: ۲/ ۴۰۷،مطوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایة بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر والظاہر أن الکراہة تنزیہیة اھ (حوالہ بالا)
مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری
اسلئے مسجد کی ٹوپیوں میں نماز نہ پڑھنی چاہئے اور مسجد کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ مسجد میں کوئی ٹوپی نہ رکھیں، جو لوگ ان ٹوپیوں میں نماز پڑھینگے سب کی نماز کے نقص کا وبال ان ٹوپی رکھنے والوں پر ہوگا،
نیز مسجد میں ٹوپی رکھنے کی صورت میں ٹوپی کی طرف سے لوگوں کو کاہل اور سست بنانا ہے، ٹوپی کی اہمیت کو دل سے نکالنا ہے،
ائمہ مساجد کو چاہئے کہ اسطرف لوگوں کو توجہ دلائیں نماز سب سے اہم عبادت ہے اسکا کماحقہ ادا کرنا فرض ہے اسمیں کسی قسم کا نقص ساری زندگی پر اثر ڈالتا ہے اور اسکا حسن ساری زندگی کو حسین بنادیتا ہے اسلئے نماز کو حسین طریقہ پر ادا کریں، قرآن میں بعض نمازیوں کیلئے لعنت کی گئی ہے فویل اللمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون، ہلاکت ہو ان نمازیوں کیلئے جو نماز کو بھول جاتے ہیں اس بھول جانے میں یہ بھی داخل ہے کہ نماز کو بالکل نہ پڑھے اور یہ بھی داخل ہے کہ نماز کو اسکے اداب کے ساتھ مسنون طریقے پر نہ پڑھے اخلاص کے ساتھ نہ پڑھے دکھاوے کیلئے پڑھے،
کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسان ہزاروں روپئے اپنے لباس پر خرچ کردیتا ہے ہزاروں روپئے کے جوتے پہنتا ہے لیکن سو دوسو روپئے کی ٹوپی کیلئے اسکے پاس پیسے نہیں ہیں ، سر ڈھانپنے کیلئے وہ مسجد کی ٹوپیوں کا محتاج ہے یہ سنت سے بیزاری کی دلیل نہیں تو کیا ہے؟
بچوں کے سر سے ٹوپی اتارنا
بعض لوگ مسجد میں پہنچ کر چھوٹے بچوں کی ٹوپی اتارکر خود اوڑھ لیتے ہیں یہ گھٹیا عمل ہے، جو کام آپ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو دوسروں کیلئے کیوں پسند کرتے ہو؟
کیا آپکو ننگے سر نماز پڑھنا اچھا لگتا ہے؟
نہیں نا ! تو پھر بچے کو ننگا سر کیوں کردیا؟ حدیث پاک میں آتا ہے عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا يؤمنُ أحدُكم حتى يحبَّ لأخيه ما يحبُّ لنفسِه». حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے “تم میں سے کوئی اسوقت کامل مومن نہیں ہوسکتا جبتک کہ اپنے (مسلمان) بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے پسند کرتا ہے”
کیا آپکو یہ پسندہے کہ آپ نماز کی نیت باندھے ہوئے ہوں اور کوئی آپکی ٹوپی اتارکر خود پہن لے؟
نہیں نا! تو پھر بچے کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ بچہ اپنی ٹوپی خود لیکر آیا ہے کم ازکم بچے سے سبق لیجئے اور اپنی ٹوپی اپنے ساتھ بلکہ اپنے سرپر ہمیشہ رکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی ننگے سر نہیں رہا کرتے تھے جیسا کہ اوپر آپ جان چکے،
ٹوپی کا انتظام کرنا مسجد والوں کی ذمہ داری نہیں جسطرح کرتا پائجامہ وغیرہ لباس آپ اپنا پہنکر آتے ہیں اسیطرح ٹوپی بھی لباس کا حصہ ہے وہ بھی آپ اپنی ہی لیکر آئیں ، ورنہ تو ننگے آیا کیجئے اور مسجد والوں سے کہئے ستر ڈھکنے کا بھی انتظام آپکی ذمہ داری ہے،
نہیں کرینگے نا ایسا ؟ کیونکہ آپ سمجھتے ہیں ستر دھکنا آپکی ذمہ داری ہے مسجد والوں کی نہیں تو آج سے اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ سر ڈھکنا بھی آپکی اپنی ذمہ داری ہے مسجد والوں کی نہیں۔
ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم
ننگے سر نماز پڑھنا اگر سستی کی وجہ سے ہے یعنی سب لباس پہنتاہے صرف سر نہیں ڈھکتا اور کوئی عذر بھی نہیں ہے تو یہ مکروہ ہے اور اگر اپنی عاجزی وانکساری ظاہر کرنے کیلئے پڑھتا ہے تو جائز ہے اور اگر سنت سمجھکر پڑھتا ہے تو جہالت ہے، آپ صلی اللہ علیہ سے ثابت نہیں کہ آپ مستقل ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھتے ہوں بلکہ آپکا ہمیشہ کا معمول سر ڈھانک کر نماز پڑھنے کا تھا،
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلوم ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھنے کا تھا تو اس بارے میں صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کیجائے۔
اور اگر کوئی شخص ننگے سر نماز سنت کو حقیر سمجھ کر پڑھتا ہے تو یہ کفر ہے، درمختار مع ردالمحتار میں مکروہات میں ننگے سر نماز پڑھنے کی تفصیل یوں بیان کی ہے جیسا کہ اوپر گزرچکا
و في درالمختار مع ردالمحتار (شامی)
” “(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر، ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، إلا إذا احتاجت لتكوير أو عمل كثير”. (قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة، وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر، شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز. مطلب في الخشوع، (قوله: ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لايفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك؛ لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ”. (1 / 641)
اہل عرب کی نقالی
بہت سے لوگ جو چند دن عرب ممالک میں رہ کر آتے ہیں وہ اہل عرب سے مرعوب ہوکر ننگے سر نماز پڑھنے کو معیوب نہیں سمجھتے اور دلیل میں اہل عرب کا عمل پیش کرتے ہیں،
تو ان سے عرض یہ ہیکہ اہل عرب کا عمل دلیل نہیں ہے دلیل تو قرآن وسنت ہیں، قرآن وسنت سے ننگے سر نماز پڑھنے کا سنت ہونا ثابت نہیں،
اہل عرب کے تمام اعمال سنت کے مطابق ہوں ایسا کہیں نہیں لکھا ہے،
نیز عوام عوام ہوتی ہے خواص خواص ہوتے ہیں جسطر انڈیا پاکستان بنگلہ دیش کی عوام کا عمل حجت نہیں اسیطرح عرب کی عوام کا عمل حجت نہیں، آپ نے حرمین کے ائمہ کو بھی کبھی ننگے سر نماز پڑھاتے یا پڑھتے دیکھا ہے؟ (اگرچہ حجت وہ بھی نہیں بالفرض اگر وہ بھی ننگے سر نماز پڑھانا شروع کردیں تو حجت وہ بھی نہ ہوگا لیکن فی زماننا وہ سنت پر عمل پیرا ہیں) وہ تو ٹوپی کے ساتھ سر پر رومال بھی ڈالتے ہیں تب نماز پڑھاتے ہیں تو آپ کو انکے عمل کو دیکھنا چاہئے تھا نہ کہ عوام کے عمل کو، اللہ ہمیں قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے
آمین
وماعلینا الاالبلاغ
No Comments