Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

باپ دادا کے علاوہ کی طرف اپنی نسبت کرنا

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند

انسان کا نسب باپ دادا پردادا (اوپرتک) سے چلتا ہے، باپ دادا یعنی دادیہال کے لوگ یہ آدمی کے خاندان کے لوگ کہلاتے ہیں نسب کے لوگ کہلاتے ہیں ، انکے علاوہ دیگر رشتے دار ماموں خالو نانانانی یعنی نانیہال کے لوگ خاندان اور نسب کے لوگ نہیں کہلاتے ، انسان کا نسب مرد سے چلتا ہے عورت سے نہیں ، یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپکی نسل لڑکی سے چلی ہے اور حضرت فاطمہ کی اولاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اولاد کہلاتی ہے ان ہی کو سید کہا جاتا ہے، آپ کے علاوہ کسی کی نسل اور نسب عورت سے نہیں چلتا ، نسب یہ اللہ کی نعمت ہے، نسب تبدیل کرنا یعنی اپنی نسبتِ نسبی باپ دادا کے علاوہ کی طرف کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے، بہت سے لوگ اپنی نسبی نسبت اپنے باپ دادا کی طرف نہ کرکے کسی اور کی طرف اپنی نسبت کردیتے ہیں اپنی خاندانی شرافت ظاہر کرنے کیلئے یا لوگوں کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ یہ بھی اسی خاندان کا حصہ ہے یہ سراسر اللہ پر بہتان ہے، مثلا کسی غیر سید شخص کا نکاح سیدزادی سے ہوا اب اس کی اولاد اپنی ماں کی نسبت سے اپنے کو سید لکھنے لگے تو یہ حرام ہے اسلئے کہ سید لکھنے کا مطلب ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہونا حالانکہ اسکا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے نہیں ہے، تو اسطرح غیرباپ کی طرف نسبی نسبت کرنا حرام ہے ایسا آدمی جھوٹ کے دوکپڑوں میں سے ایک کو پہننے والا ہے، اور ایسا شخص گویا زبان حال سے اپنی اور اپنے خاندان کی کمتری کو ظاہر کررہا ہے، ایسا شخص اپنے باپ دادا کو بے وقعت سمجھ رہا ہے اور اس خاندان میں پیدا ہونے پر گویا اسکو رنج اور ذلت کا احساس ہورہا ہے، اور گویا کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراض ہے،
احادیث مبارکہ میں اس طرح کی حرکت کرنے پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،
عن وَاثِلَةَ بن الأَسْقَعِ ـ رضي الله عنه ـ مرفوعاً: «إن من أعظم الفِرَى أن يَدَّعِيَ الرجلُ إلى غير أبيه، أو يُرِي عَيْنَهُ ما لم تَرَ، أو يقول على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما لم يَقْلْ».
[صحيح] – [رواه البخاري]
واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دکھائے جو اس نے نہیں دیکھا(یعنی بغیر کچھ دیکھے من گھڑت خواب بیان کرے)، یا رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو“
شریعت میں والد گرامی کی بہت اہمیت ہے، اس سے رو گردانی کو کفر قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’

عن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه”.

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنے والد کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو پانچ صد سال کے فاصلے سے محسوس ہو گی۔‘‘ (ابن ماجہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)

وَعَنْ يزيدَ شريكِ بن طارقٍ قالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا عَلى المِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتهُ يَقُولُ: … وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبيهِ، أَوْ انتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَاليهِ، فَعلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّه وَالملائِكَةِ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يقْبَلُ اللَّه مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامةِ صَرْفًا وَلا عَدْلًا. متفقٌ عليه”.

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فتوی کا اقتباس ہے پہلے سوال دیکھیں

سوال

اگر کسی کے باپ دادا نے اپنا نسب بدلا ہو اور ورثا اس بات سے واقف ہیں، لیکن اب انہیں اپنی حقیقی قوم کا نہیں پتا تو اس صورت میں وہ خود کو کس کی طرف منسوب کریں؟

جواب

“واضح رہے کہ احادیث میں نسب کی تبدیلی پر سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ گھرانے کو اپنا حقیقی قبیلہ معلوم نہ ہو تو بھی اپنی نسبت باپ دادا کی جانب سے غلط کردہ نسبت کی طرف کرنا جائز نہیں ہے”

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی نسبت غیر باپ دادا کی طرف کرنا کتنا سنگین گناہ ہے، لیکن بہت سے لوگ محض اپنی شان اونچی دکھانے کیلئے اپنی نسبت کو تبدیل کرلیتے ہیں انکو آخرت کا خوف کرنا چاہئے، ورنہ یہ ظاہری شان اور دکھاوا کسی کام آنیوالا نہیں ہے لنا اعمالنا ولکم اعمالکم، سب کے اپنے اعمال ہی کام آئینگے ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم اللہ کا مقرب بندہ وہ ہے جو متقی ہے،

ایک ہوتی ہے نسبت تعلیمی مثلا کسی ادارہ سے تعلیم حاصل کی اسکی معروف جو نسبت ہو اسکی طرف نسبت کرنا مثلا دارالعلوم دیوبند سے فارغ درس نظامی شخص کا قاسمی لکھنا یا مظاہر علوم سے فارغ شخص کا مظاہری لکھنا یہ اس وعید میں شامل نہیں اسلئے کہ یہ نسبت تعلیم وتعلم کے اعتبار سے ہے، ایسی نسبت کہ سننے والا یا پڑھنے والا کنفیوز ہوجائے کہ یہ شخصیت جسکی طرف نسبت کی گئی ہے اس ناسب کے شجرہ نسب میں شامل ہے ایسی نسبت کرنا یا ایسا تاثر دینا حرام ہے، اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے

No Comments

Leave a Reply