Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

موجودہ حالات میں سفر میں اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے کا حکم

مفتی محمد عطاءاللہ سمیعی المظاہری استاذ معہدالشریعة الاسلامیہ اکرام نگر موانہ ضلع میرٹھ یوپی الہند

موجودہ حالات میں سفر میں اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے کا حکم

سوال
حضرت مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہیکہ میں کرناٹک کے ضلع “ یادگیر” کا رہنے والا ہوں ہمارا بزنس کے سلسلے میں دہلی ممبئی کلکتہ آناجانا رہتا ہے، راستہ لمبا ہوتا ہے نمازوں کا وقت ہوتا ہے تو ہم ٹرین یا اسٹیشن پر نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو بہت سے لوگ ہمیں منع کرتے ہیں بہت سے شور کرنے لگتے ہیں جس سے ہمیں خوف آنے لگا ہے، پہلے کیا ہوتا تھا کہ ہم ٹرین میں اندر بھی اور اسٹیشن پر جہاں موقع ملتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے بلکہ ہندو ہمیں خود جگہ دیدیتے تھے نماز کیلئے ، کوئی پرابلم نہیں ہوتی تھی لیکن اب جھگڑے کا سا ڈر رہتا ہے تو اب ہم کیا کریں نماز پڑھیں نہ پڑھیں ایسے عوامی مقامات پر ؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمادیجئے احسان ہوگا۔

محمدبلال یادگیری کرناٹک

الجواب بتوفیق الملک الوھاب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ :۔ جواب یہ ہیکہ نماز ایک اہم عبادت ہے جسکو اللہ نے مقررہ وقتوں میں ہر عاقل بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض فرمایا ہے “ان الصلوة کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا”
نماز کو جان بوجھ کر بنا کسی عذر کے چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے،
چنانچہ سفر میں بھی نماز معاف نہیں ہے اگر سفر مامون ہو، کوئی عذر نہ ہو،
لیکن آج کل کے پر خطر حالات میں جیسا کہ واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ اسلام دشمن عناصر ہر وقت کسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور فساد شروع کردیتے ہیں، جیسا کہ ابھی لولو مال کا واقعہ سامنے آیا کہ نماز پڑھنے پر ہنگامہ کیا گیا، اسی طرح گروگرام ہریانہ میں عوامی مقامات پر نماز کو لیکر کافی احتجاج اور بحث ومباحثہ جاری ہے ، تو اگر عوامی مقامات مثلا اسٹیشن بس اسٹینڈ ایئرپورٹ مال پارک وغیرہ میں نماز پڑھنے سے جان کا یا عزت کا کوئی خطرہ ہو تو اس بات کی اجازت ہے کہ نماز کو موخر کردے، اسمیں بھی یہ دھیان رہے کہ نماز کو بالکلیہ چھوڑ نہ دے بلکہ اسوقت نمازیوں کی سی ہیئت بنالے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اور بعد میں اپنے مقام پر پہنچ کر ان نمازوں کی قضا کرلے،
سب سے پہلے تو بہادری کے ساتھ ملک میں یہ مہم چلائی جائے کہ ہمیں بھی اپنے مذہبی امور کی اسی طرح آزادی ہو جیسے کانوڑیوں کو ہے کہ انکی وجہ سے روڈ بند کردئیے جاتے ہیں بسوں کے روٹ تبدیل کردئیے جاتے ہیں اور سرکاری طور پر انکے لئے مکمل انتظام کیا جاتا ہے، اسیطرح ہمیں آزادی ہونی چاہئے ہم یہاں حصے دار ہیں کرائے دار نہیں، اپنی اجنبیت کو ختم کرانے کوشش جاری رہنی چاہئے ، ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے انسانوں سے، صرف اللہ سے ڈریں ، البتہ احتیاط لازم ہے شریعت کے دائرے میں، باوجود ان سب کے اگر کوئی شخص سفر میں ہو تو یہ کوشش کیجائے کہ کسی طرح نماز وقت پر ہی ادا ہو، اگر اسٹیشن ( یا دیگر عوامی مقامات ) اپنے علاقے کا ہے اور معلوم ہو کہ یہاں کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا تو اسٹیشن پر نماز ادا کرلیجائے، اسی طرح ٹرین کے اندر ہر ڈبے کے آخر میں آگے پیچھے خالی جگہ ہوتی ہے اگر وہاں بغیر کسی رکاوٹ کے نماز پڑھ سکتا ہو کوئی خطرہ نہ ہو تو وہاں نماز پڑھے اور اگر خطرہ ہو تو پھر نماز کو موخر کردے ، اور نمازیوں کی سی ہیئت بنالے سیٹ پر بیٹھے یعنی اشاروں سے رکوع سجدہ وغیرہ سب کرے پھر مقام پر پہنچ کر نماز کی قضا کرے، ٹرین کی گیلری میں نماز پڑھنا درست نہیں اسلئے کہ آنے جانیوالوں کو تکلیف ہوتی ہے اور شریعت نے راستے میں نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی أنْ يُصَلَّی فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ : فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالْمَجْزَرَةِ، وَالْمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيْقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِیْ مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اﷲِ.
ترمذی، السنن، أبواب الصلاة، باب ما جاء فی کراهية ما يصلی إليه وفيه، 1 : 375، رقم : 346
’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا : (1) جہاں گوبر یعنی کوڑا کرکٹ ڈالتے ہیں، (2) قصاب خانہ میں (جہاں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں)، (3) قبرستان میں، (4) چلتے راستہ میں، (5) حمام میں (نہانے کی جگہ)، (6) اونٹوں کے باڑے میں، (7) بیت اﷲ کی چھت پر،
وتکرہ أیضاً في الشارع وأرض الناس کما فی الفتاوی الہندیة عن المضمرات۔ (3/126)۔

اور اگر ٹرین یا اسٹیشن پر نماز ادا کرنے سے ہنگامہ کا خطرہ ہو تو دیکھے اسٹیشن کے قریب کوئی مسجد ہے اگر اسمیں نماز ادا کرنے سے ٹرین چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو تو وہاں جاکر نماز ادا کرکے آجائے، لیکن جیسا کہ عام طور پر ٹرین اسٹیشن پر زیادہ دیر نہیں رکتی اور اگر رکتی بھی ہے تو سامان کا خطرہ ہوتا ہے، تو ایسی حالت میں نماز کو موخر کردے، لیکن جیسا کہ اوپر کہا کہ بالکہ نماز کو نہ چھوڑے بلکہ اسوقت بھی نماز کا وقت ہونے پر نمازیوں کی سی ہیئت بنالے پھر بعد میں اسکی قضا کرلے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ خندق کے موقع پر چند نمازیں قضا ہوگئیں تھیں، وجہ کیا تھی؟ دشمنوں کا خطرہ تھا ! اسی طرح یہاں بھی دشمنوں سے خطرہ کی وجہ سے نماز کو موخر کردینے کی گنجائش ہے،
اسی طرح جاننا چاہئے کہ نماز چھوڑنا حرام ہے لیکن عذر اور مجبوری کے وقت شریعت بقدر ضرورت اسکی حرمت کو مبتلا بہ کیلئے مرتفع کردیتی ہے جیسا کہ مردار جانور، خون، خنزیر کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن فمن اضطر غیر باغ ولاعاد میں اللہ نے مجبور شخص کو انکے کھانے کی اجازت دی ہے اسی طرح نماز کی قضاء کا مسئلہ ہے کہ اگر سفر میں عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے میں جھگڑے کا خطرہ ہو تو اس نماز کو موخر کرنے کی اجازت ہوگی لیکن حتی الامکان کوشش ادائیگی کی ہونی چاہئے، اگر نہ ہوسکے تب یہ حکم ہے،

اور سرکردہ حضرات کو اس جانب کوشش کرنی چاہئے کہ سرکاری طور پر اس سختی کو اجنبیت کو ختم کرائیں کہ عوامی مقامات پر اگر کسی کے آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہورہی ہے تو نما ادا کرنے کی اجازت ہو، اور جو شخص ان نمازیوں کو پریشان کرے اسکے خلاف کارروائی کرائی جائے، اسی طرح جہاں سرکاری بور پر اسطرح کی پابندی نہیں ہے تو ان جگہوں پر اگر طاقت وقوت ہو تو فسادیوں کا مقابلہ کیا جائے، انکے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائیں اور قانون کے مطابق انکے خلاف کاروائی کرائی جائے، اور جہاں سرکاری طور پر پابندی ہو تو اس ہابندی کو ختم کرانے کی کوشش کیجائے

کتبہ العبد الفقیر الی اللہ محمدعطاءللہ سمیعی

واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم

No Comments

Leave a Reply