Mufti Muhammad Ataullah Samiee

  • Home
  • تحریرات
  • تجزیات
  • قربانی کی بنیاد ہی غلط ہےیہی معلوم نہیں ہے کہ ذبیح حضرت اسمعیل تھے یا اسحاق علیہما السلام ؟ (قسط۱)

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

  • Home
  • تحریرات
  • تجزیات
  • قربانی کی بنیاد ہی غلط ہےیہی معلوم نہیں ہے کہ ذبیح حضرت اسمعیل تھے یا اسحاق علیہما السلام ؟ (قسط۱)

قربانی کی بنیاد ہی غلط ہےیہی معلوم نہیں ہے کہ ذبیح حضرت اسمعیل تھے یا اسحاق علیہما السلام ؟ (قسط۱)

قسط(۱)

قربانی کی بنیاد ہی غلط ہے
یہی معلوم نہیں ہے کہ ذبیح حضرت اسمعیل تھے یا اسحاق علیہما السلام ؟

اعتراضات کا جواب بقلم مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
www.atasamiee.in

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے واقعے پر چند اعتراضات کا جواب
————————————————————————

دراصل ان اعتراضات کا مقصد قربانی کے فلسفے کو مشکوک بنانا ہے، اسلئے قربانی کی بنیاد یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب قربانی کی سنت میں شکو ک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کیجاتی ہے،
تفصیل میں نہ جاتے ہوئے میں اصل مدعا کی طرف آتا ہوں
ایک ایڈوکیٹ صاحب ہیں جنہوں نے اپنے پیشہ ورانہ ذہن کی کچھ اپج سے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کی ہے، اور نشانہ مولویوں پر سادھا ہے، دراصل جو لوگ اسلام کو برا کہنا چاہتے ہیں لیکن کھل کر برا نہیں کہہ سکتے تو اسلام کے سپاہیوں کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
بہر حال انکے اعتراضات ہندی میں سوشل میڈیا کی زینت کو کم کررہے ہیں
جنکے اعتراضات کا نچوڑ میں پیش کئے دیتا ہوں پھر ان اعتراضات کا جواب دیتے ہیں

اعتراضات
(۱) مولویوں کی قربانی کی بنیاد ہی غلط ہے:

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹے تھے: اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام)۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے کس بیٹے کو ذبح کرنے کی کوشش کی تھی؟
اس مسئلہ پر مسلمانوں میں اختلافی حدیثیں موجود ہیں۔

مولوی لٹریچر کے مطابق “ذبیح کون تھا؟” اس پر صحابۂ کرام میں بھی شرمناک حد تک اختلاف ہے۔ یہ اختلاف دو درجوں پر ہے:

مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کا آپس میں جھگڑا ہے۔

مسلمانوں کے اپنے صحابہ کرام میں بھی اختلاف ہے

یہود و نصاریٰ کا مؤقف:

“ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کی کوشش کی تھی، وہی ذبیح تھے۔”
(دیکھیں: بائبل، کتاب پیدائش، باب 22: آیت 1 تا 9)

قابل غور بات یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں اس بات پر مکمل اتفاق (اجماع) ہے کہ حضرت اسحاق ہی ذبیح تھے، ان میں کوئی اختلاف نہیں
(۳) بعض مفسرین جیسے ابن جریر طبری ذبح اسحق کے قائل ہیں
بعض ذبح اسمعیل کے اور بعض نے جیسےابن کثیر، علامہ مودودی اور مفتی شفیع رحمہم اللہ نے دونوں طرح کی روایات بیان کی ہیں
(۴) بعض صحابہ سے دونوں طرح کی روایات منقول ہیں
(۵) اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبیح کا نام بتایا تھا تو ایک ہی تو بتایا ہوگا پھر یہ اختلاف کیوں ہوا؟ کیا یہ نبی اور صحابہ کی توہین نہیں ہے کہ انکی طرف دوطرح کی باتوں کی نسبت کی گئی ہے؟
خلاصہ یہ ہوا کہ قربانی کی بنیاد ہی مجہول ہے کچھ پتہ نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کس بیٹے کی قربانی دی تھی؟ حضرت اسمعیل کی یا حضرت اسحق کی؟ روایات دونوں طرح کی ہیں یہودونصاری حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں جبکہ مسلمانوں میں بعض حضرت اسمعیل کو اور بعض حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں؟
جب بنیاد ہی درست نہیں تو قربانی کا فلسلفہ قابل اعتبار نہیں،

الجواب بتوفیق الملک الوھاب
سب سے پہلی بات یہ ہےکہ ہمیں اس بات کے جاننے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے کس بیٹے کو قربان کیا تھا؟ اسلئے کہ اگر اسکی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالی صراحتا اس بیٹے کا نام ذکر فرماتے اگرچہ پھر بھی تمام دلائل اس بیٹے کے حق میں ہیں جسکو قربان کیا گیا تھا، لہذ اہم اعتراض کا جواب دیتے ہیں

پہلا اعتراض تھا کہ “مولویوں کی قربانی کی بنیاد ہی غلط ہے”

یہاں پر دو باتیں ہیں (۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نفس قربانی کا ثبوت ہے یا نہیں؟ نیز کیا مولوی حضرات اپنی طرف سے قربانی کو گھڑے ہوئے ہیں؟ (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کس بیٹے کی قربانی پیش کی؟
ہمارے لئے سب سے پہلی دلیل قرآن کریم ہے تو ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے نفس قربانی پیش کی یا نہیں؟
قرآن کہتا ہے

٢ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
١٠٣ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ
١٠٤ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ
١٠٥ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
١٠٦ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ
١٠٧ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِیم

پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو (ابراہیم نے) کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو بتا تیری کیا رائے ہے؟
بیٹے نے کہا: اے ابا جان! جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے وہ کر گزریے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
پھر جب دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکا دیا اور ابراہیم نے (بیٹے کو) ماتھے کے بل لٹا دیا۔
اور ہم نے پکارا: اے ابراہیم!
تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
بے شک یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔
اور ہم نے اس کے بدلے ایک عظیم قربانی فدیہ میں دے دی

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تھی

قرآن کے بعد دوسرا نمبر حدیث پاک کا آتاہے حدیث پاک سے بھی حضرت ابراہیم کے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا ثبوت ملتا ہے

ایک مرتبہ صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا :یارسول اللہ ﷺ،ماھی الاضاحی؟قال سنۃ ابیکم ابراھیم ،قالوافمالنافیھا یارسول اللہ ﷺ؟قال بکل شعرۃ حسنۃ،قالوافالصوف یارسول اللہﷺ؟قال:بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ۔( ابن ماجہ :حدیث نمبر؛۳۱۲۶)کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کو اس سے کیا ملتا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہر بال کے بدلہ ایک نیکی،صحابہ نے عر ض کیا : اون والے جانور یعنی (بھیڑ،دنبہ )کے ذبح پر کیا ملتا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلہ میں بھی ایک نیکی ملتی ہے ۔

لہذا یہ الزام کہ “مولوی” یہ سب جھوٹ گھڑتے ہیں، ڈرامہ کرتے ہیں۔

یہ گستاخی اور جہالت پر مبنی جملہ ہے۔ جو کام خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا، اور جس کی یاد میں قربانی کو شعائر اللہ قرار دیا، اس کو “ڈرامہ” کہنا صرف دینی جاہل یا ملحد ذہن ہی کر سکتا ہے۔

اللہ فرماتا ہے:

“ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ”
(الحج: 32)
“اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ دل کے تقویٰ سے ہے۔

اعتراض : حضرت ابراہیم نے اپنے کس بیٹے کی قربانی پیش کی؟
اسکے تحت پھر متعدد اشکالات ہیں جنکا خلاصہ اوپر گزرا جنکا جواب دیا جارہا ہے
سوال : ذبیح کون ہیں حضرت اسمعیل یا حضرت اسحاق؟
تین تفسیری اقتباسات کا اردو ترجمہ طوالت سے بچتے ہوئے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ قارئین کو اصل مفہوم اچھی طرح سمجھ آ سکے:

  1. تفسیر کبیر (امام رازیؒ) کا ترجمہ:

“ان لوگوں نے جو یہ کہتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، انہوں نے کئی دلیلیں پیش کی ہیں:

پہلی دلیل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔”

اور ایک دیہاتی نے آپ سے کہا:
“اے دو ذبیحوں کے بیٹے!”
تو آپ مسکرائے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی، تو آپ نے فرمایا:
“جب عبدالمطلب نے زمزم کا کنواں کھودا تو اس نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ اس کا کام آسان کر دے، تو وہ اپنے بیٹوں میں سے ایک کو اللہ کے لیے قربان کر دے گا۔ قرعہ اندازی ہوئی تو حضرت عبداللہ (آپ کے والد) کا نام نکلا۔ مگر ان کے ماموں (یعنی والدہ کی طرف کے رشتہ دار) نے انہیں قربان کرنے سے روکا اور کہا: اپنے بیٹے کے بدلے سو اونٹ دے دو۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے کو سو اونٹ کے بدلے فدیہ دے دیا۔ دوسرا ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔”

دوسری دلیل:

اصمعی رحمہ اللہ سے نقل ہے کہ انہوں نے ابوعمرو بن العلاء سے پوچھا:
ذبیح کون تھا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اے اصمعی! تمہاری عقل کہاں چلی گئی؟ حضرت اسحاق علیہ السلام تو کبھی مکہ میں تھے ہی نہیں۔ بلکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام مکہ میں تھے، اور انہی نے اپنے والد (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کی تھی، اور قربانی کی جگہ (منیٰ) بھی مکہ میں ہے۔”

تیسری دلیل:

اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کو صبر کرنے والوں میں شمار کیا، جیسا کہ فرمایا:
“اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل، یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے” واسمعیل وادریس وذالکفل کل من الصابرین (الأنبیاء: 85)
یہ صبر دراصل ذبح پر صبر تھا جسکو سورہ صافات میں بیان کیا “ستجدنی ان شاءاللہ من الصابرین آپ مجھکو صبر کرنیوالا پائینگے ۔
اسی طرح اللہ نے فرمایا:
“بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے” انہ کان صادق الوعد (مریم: 54)
کیونکہ انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ذبح پر صبر کریں گے، اور انہوں نے سچ کر دکھایا۔

“ستجدنی ان شاءاللہ من الصابرین”

چوتھی دلیل:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد (اسکے بیٹے ) یعقوب کی” (ہود: 71)
اب اگر ذبیح اسحاق ہوتے تو دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں:
• یا تو قربانی یعقوب کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہوتا،
• یا بعد کا۔

پہلا باطل ہے، کیونکہ اللہ نے اسحاق کے ساتھ ساتھ یعقوب کی خوشخبری بھی دی، (اگر اسحاق کو قربان کیا گیا ہوتا تو انکے بیٹے کی خوشخبری ساتھ دینے کا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ پھر تو ابراہیم کو یقینی طور پر معلوم ہوجاتا کہ قربانی دینے سے اسحاق کی موت واقع نہ ہوگی کیونکہ ابھی تو اسکے اولاد بھی ہونی ہے ، پھر اس امتحان پر ابراہیم موجب تعریف نہ ہوتے، اور اسکو بلاء مبین اور ذبح عظیم نہ کہا جاتا، یہ تبھی ممکن ہے جبکہ پہلے سے ابراہیم کو کچھ معلوم نہ ہو کہ کیا ہونیوالا ہے؟ اور انکو یقین ہو کہ قربانی میں بیٹے کی موت یقینی ہے، اور اگر یعقوب کی پیدائش سے پہلے اسحاق کو ذبح کرنے کا حکم ہوتا تو یہ اللہ کی بشارت کے خلاف ہوتا۔ کیونکہ اللہ پہلے یعقوب کی بشارت دے چکے تو اسحاق کو ذبح کروانیکا کیا مطلب؟

دوسرا بھی غلط ہے، کیونکہ قرآن کہتا ہے:
“جب وہ بچہ (باپ کے ساتھ) دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں”
تو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بچہ ذبح کے قابل ہو چکا تھا۔ اگر یہ واقعہ بعد کے زمانے کا ہوتا، تو آیت کا سیاق متاثر ہوتا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ ذبیح اسماعیل ہی تھے۔

پانچویں دلیل:

اللہ نے فرمایا:
“میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں، وہ مجھے راستہ دکھائے گا” (الصافات: 99)
پھر انہوں نے دعا کی:
“اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما” (الصافات: 100)
یہ دعا اسی وقت مناسب تھی جب حضرت ابراہیم کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ کیونکہ اگر ان کے ہاں کوئی بیٹا موجود ہوتا تو دوبارہ ایک بیٹے کی دعا کا مطلب نہ بنتا۔
اور “من الصالحین” کا مطلب بھی کم از کم ایک بیٹے کی دعا ہے، کیونکہ “من” تبعیض کے لیے آتا ہے، اور کم از کم ایک فرد مراد ہوتا ہے۔

پس یہ دعا پہلا بیٹا مانگنے کی تھی، اور سب کا اجماع ہے کہ حضرت اسماعیل، اسحاق سے بڑے ہیں۔
پھر اللہ نے اسی کے فوراً بعد ذبح کا واقعہ بیان کیا، تو ثابت ہوا کہ ذبیح اسماعیل ہی تھے۔

چھٹی دلیل:

کئی احادیث میں آیا ہے کہ قربانی کے مینڈھے کے سینگ خانہ کعبہ میں لٹکے ہوتے تھے۔
یہ تب ہی ممکن تھا جب ذبح مکہ میں ہوا ہو۔
اگر ذبیح اسحاق ہوتے تو قربانی شام (فلسطین) میں ہوئی ہوتی، نہ کہ مکہ میں۔

  1. التیسیر فی التفسیر (مفتی تقی عثمانی مدظلہم):

“جنہوں نے ذبیح کو حضرت اسماعیل قرار دیا، ان کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے:
“میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں”
جس سے مراد ایک تو آپ کے والد عبداللہ اور دوسرا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی دلیل ہے:
“ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی”
یعنی جب حضرت سارہ کو اسحاق کی اور ان کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی گئی، اور ابراہیم کو اس کا علم ہو گیا، تو یہ بات یقینی تھی کہ اسحاق کو ذبح نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ تو یعقوب کے باپ بننے والے تھے۔
لہٰذا اگر ان کے ذبح کا حکم دیا جاتا، تو آزمائش حقیقی نہ رہتی (کیونکہ انکو پہلے ہی معلوم رہتا کہ یہ ذبح نہ ہوگا اسلئے کہ اسکو تو ابھی باپ بھی بننا ہے، آزمائش اسی صورت میں ممکن تھی جبکہ حضرت ابراہیم کو یہ معلوم ہو کہ قربانی کے بعد یہ ختم ہوجائیگا ) ۔

اور اس سورہ (الصافات) میں بھی ذبح کا واقعہ مکمل ہونے کے بعد فرمایا:
“ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی”
یعنی یہ واقعہ (ذبح) اسحاق کی پیدائش سے پہلے کا ہے، جس سے واضح ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل تھے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔