Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

نوٹوں کی مالا اور علم کا جنازہ: دار الحدیث سے انسٹاگرام تک

نوٹوں کی مالا اور علم کا جنازہ: دار الحدیث سے انسٹاگرام تک

محمدعطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
www.atasamiee.in

زمانہ بدل گیا ہے، مگر افسوس! بعض لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ وہ جو کبھی “حدثنا” اور “اخبرنا” کی صدا میں مشغول تھے، آج انسٹاگرام کی ریلز، ٹک ٹاک کے ٹرینڈز اور فیس بک کی لائکس کے اسیر ہو چکے ہیں۔ درس گاہوں میں جب وہ بیٹھتے تھے تو سر جھکا کر استاد کے لبوں سے جھڑتے موتیوں کو چننے کی کوشش کرتے، مگر آج وہ نوٹوں کے ہار گلے میں ڈالے، کیمرے کے سامنے یوں قلابازیاں کھا رہے ہیں جیسے کوئی اسٹیج ڈانسر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہو۔

کیا واقعی علم حدیث، تفسیر اور فقہ کا یہی مقصد تھا؟ کیا قرطاس و قلم کی وہ محنت، جو کبھی سلف کے ہاتھوں میں چراغ بن کر روشنی پھیلاتی تھی، آج محض “ویوز” بڑھانے کی دوڑ میں فنا ہو جائے گی؟

جب علم کے نام پر تماشا لگایا گیا

یہ منظر کتنا عجیب ہے کہ جہاں کبھی علماء، اپنے کندھوں پر علم کا بوجھ اٹھائے، امت کی راہنمائی کا بیڑا اٹھاتے تھے، آج وہاں کے بعض فضلاء نوٹوں کی مالا گلے میں ڈالے، خود کو فلمی ہیرو سمجھ رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کہاں وہ اکابر، جو سادہ لباس میں مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ کر امت کے مسائل کا حل تلاش کرتے تھے، اور کہاں آج کے یہ “نوٹ بردار مولوی” جو ریلز اور اسٹوریز کے میدان کے شہسوار بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں!

جب کوئی شخص دارالعلوم میں قدم رکھتا ہے، تو وہ ایک عظیم مشن کا حصہ بننے آتا ہے۔ اس کے دامن میں علوم وحی کے وہ موتی رکھے جاتے ہیں جن سے دلوں کی دنیا بدلتی ہے، جن کے ذریعے امت کی راہنمائی کی جاتی ہے، اور جو انسان کو زمین پر اللہ کا نائب بنا دیتے ہیں۔ مگر افسوس! بعض لوگوں نے اس علم کو صرف ایک “ٹریڈ مارک” بنا لیا ہے، جسے وہ انسٹاگرام کی پروفائل میں سجا کر “مولانا” کا خطاب لیتے ہیں، اور پھر اس خطاب کو نوٹوں کی چمک میں فروخت کر دیتے ہیں۔

یہ درسگاہ ہے یا فلمی سیٹ؟

کبھی دارالعلوم کی مسجدوں میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں گونجا کرتی تھیں، آج وہاں کے بعض “نام نہاد فارغ التحصیل” ٹرینڈی میوزک پر اپنی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ کبھی یہ درسگاہیں زہد و تقویٰ، سادگی اور تواضع کی علامت ہوا کرتی تھیں، مگر آج کے کچھ “اسٹار مولوی” شہرت، نمود و نمائش اور ریاکاری کے جال میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے اس عمل سے علم دین کی حرمت پر کیا حرف آ رہا ہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جو لوگ کبھی “طالبِ علم” کہلانے پر فخر محسوس کرتے تھے، آج وہ “سوشل میڈیا انفلوئنسر” کہلانے کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔

شہرت کی دلدل اور علم کی بے توقیری

کیا واقعی ان کی نیت علم حاصل کرنا تھی، یا وہ صرف ایک ایسا لیبل چاہتے تھے جسے استعمال کر کے وہ بھی “مولانا ریئلٹی شو” کا حصہ بن سکیں؟ آج اگر کوئی عالم، امت کی اصلاح کے لیے ٹیکنالوجی اور میڈیا کا مثبت استعمال کرتا ہے تو یہ ایک مستحسن عمل ہے، مگر جب علم دین کو محض ایک “برانڈ” بنا کر بیچا جانے لگے، جب دارالعلوم کے فرزند نوٹوں کے ہار میں اپنا وقار دفن کر دیں، اور جب شہرت کے شوق میں علم کا جنازہ نکال دیا جائے، تو پھر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

یہ رویہ صرف ان افراد کی کم عقلی کا مظہر نہیں، بلکہ اس پورے تعلیمی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے جہاں سے ایسے لوگ فارغ ہو رہے ہیں جو علم کے بجائے شہرت کی پیاس میں بھٹک رہے ہیں۔

آج کا المیہ: علم یا تفریح؟

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس علم کی بنیاد نبی کریم ﷺ نے رکھی، جو خلفائے راشدین کے زہد و ورع کا مظہر تھا، جو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے زہد وتقویٰ کی علامت تھا، وہ آج محض ایک “ٹرینڈ” بن چکا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ آج کے کچھ “نوٹوں کے مالا بردار مولوی” علم کو نہیں، بلکہ علم کے نام پر تفریح کو عام کر رہے ہیں۔ وہ دارالعلوم کے فیض یافتہ کہلانے کے باوجود اپنے کردار سے دارالعلوم کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔

واپس آئیے، ورنہ دیر ہو جائے گی!

اب بھی وقت ہے کہ ایسے لوگوں کو ہوش آنا چاہیے۔ اگر علم حاصل کیا ہے، تو اس کی عزت بھی کرنی ہوگی۔ اگر فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، تو اپنی نسبت کی لاج رکھنی ہوگی۔ اگر واقعی دین کے داعی ہیں، تو پھر “انسٹاگرام کے اسٹار” نہیں، “امت کے رہبر” بن کر دکھانا ہوگا۔

یہ دنیاوی شہرت اور مال و دولت کی چمک دمک ہمیشہ نہیں رہے گی، مگر علم دین کی برکت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یاد رکھیں، جو علم آپ کے دل میں عاجزی پیدا نہ کرے، وہ آپ کے لیے صرف فتنہ ہے، اور جو علم صرف دنیا کمانے کے لیے استعمال ہو، وہ ایک دن آپ کے لیے حسرت بن جائے گا۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطل وارزقنا اجتنابہ

No Comments

Leave a Reply