Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

ہندوستان کی دستور سازی میں مسلمانوں کا کردار

ہندوستان کی دستور سازی میں مسلمانوں کا کردار

  مفتی محمد عطاء اللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
www.atasamiee.in

ہندوستان کی جمہوریت اور دستور کا قیام ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک ایسا عظیم باب ہے جس میں تمام مذاہب، طبقات اور اقوام کے لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ بات عام ہے کہ ملک کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کے بعد آزاد ہندوستان کے لئے دستور سازی میں مسلمانوں اور خاص طور پر علمائے کرام نے جو خدمات انجام دیں، انہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ خدمات آج بھی اس ملک کی جمہوری بنیادوں کو مضبوطی فراہم کر رہی ہیں۔

دستور سازی کا پس منظر

ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا، لیکن آزاد ہندوستان کو ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ فراہم کرنے کی ضرورت تھی تاکہ تمام مذاہب اور طبقات کے افراد کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا سکے۔ اسی مقصد کے تحت 29 اگست 1947 کو ایک آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی، جس نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سربراہی میں دو سال، گیارہ مہینے اور اٹھارہ دن کی محنت کے بعد 26 جنوری 1950 کو ہندوستان کا دستور نافذ کیا۔

یہ دستور تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے اور انہیں مذہبی، ثقافتی اور ذاتی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں مختلف طبقات کے حقوق کو محفوظ رکھنے کے لیے خاص دفعات شامل کی گئیں، جن میں اقلیتوں کے تحفظ کا پہلو خاص طور پر نمایاں ہے۔

مسلمانوں کا حصہ اور کردار

مسلمانوں کا کردار آزادی کی تحریک تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آزادی کے بعد ملک کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے میں بھی انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آئین سازی کے دوران مسلمان ممبران اور علمائے کرام نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ ملک کا آئین تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت کرے۔

تحقیقات کے مطابق، آئین ساز اسمبلی میں 35 مسلمان اراکین شامل تھے جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا حسرت موہانی، بیگم عزیز رسول، سید امجد علی، رفیع احمد قدوائی، اور دیگر کئی نمایاں شخصیات شامل تھیں۔

پہلی آئین ساز اسمبلی میں شامل مسلمانوں کی فہرست

1) مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم
(2) عبدالقادر محمد شیخ
(3) ابوالقاسم خان
(5 اپریل 1905۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ مشہورتھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار اور سیاستدان تھے۔
(4) عبدالحمید
(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور کے سرپرست اور زمینداربھی تھے۔
(6) سید عبدالرؤف
(7) چوہدری عابد حسین
(8) شیخ محمد عبداللہ
(9) سید امجد علی
(10) آصف علی آپ پیشے سے ایک وکیل تھے، آپ پہلی بار ہندوستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اورکئی سال تک اڑیسہ(اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔
(11) بشیر حسین زیدی (1898۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپB.H. زیدی سے زیادہ معروف تھے۔
(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاستداں تھے۔
(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاستداں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد مسلم خاتون۔
(14) حیدر حسین(15) مولاناحسرت موہانی(معروف شاعر،مجاہدِ آزادی،اردوے معلی کے بانی مدیر)
(16)حسین امام
(17) جسیم الدین احمد
(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم
(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899۔14 نومبر 1977) (20) کے اے محمد(21) لطیف الرحمن
(22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآپ کو’’قائدِ ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پرآزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔
(24) محمد اسماعیل خان
(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن(سیوہاروی)(26) محمد طاہر
(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوب جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔
(28) مرزا محمد افضل بیگ
(29) مولانا محمد سعید مسعودی
(30)نذیر الدین احمد
(31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف مجاہدِآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندوستان کے پہلے وزیرمواصلات)(32) راغب احسن
(33) سید جعفر امام
(34) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔
(35)تجمل حسین

علمائے کرام کا کردار

علمائے کرام نے آئین سازی میں خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی، تعلیمی، اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ مولانا حسرت موہانی نے اسمبلی میں واضح طور پر اعلان کیا کہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی مداخلت ناقابل قبول ہوگی۔ انہوں نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ بات کہی کہ مسلمانوں کے خاندانی قوانین (طلاق، شادی، اور وراثت) میں تبدیلی ناقابل برداشت ہوگی۔

اسی طرح، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اقلیتوں کے آئینی حقوق کو محفوظ کرنے کے لئے بڑی محنت کی۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آئین کے ذریعے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے جائیں اور کسی بھی مذہب یا طبقے کو فوقیت نہ دی جائے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی قیادت

مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے آزاد ہندوستان کے تعلیمی نظام اور آئینی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ملک کو سیکولر آئین دینے کے لیے اہم کوششیں کیں۔

دستور سازی اور موجودہ حالات

آج ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جہاں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ یہ اس دستور کی بدولت ممکن ہوا جس میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔ لیکن موجودہ حالات میں دستور کی ان دفعات کو کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کو سلب کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔

حاصل کلام
مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی اور اس کی دستور سازی میں جو کردار ادا کیا، اسے فراموش کرنا تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔ آج ضرورت ہے کہ ان خدمات کو اجاگر کیا جائے اور آئندہ نسلوں کو یہ بتایا جائے کہ اس ملک کی جمہوریت اور سالمیت کے پیچھے مسلمانوں کی قربانیاں شامل ہیں۔
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

No Comments

Leave a Reply