Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

سیدوں یعنی اولاد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور نفرت قسط(۱)

سیدوں یعنی اولاد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور محبت

قسط (۱)

بقلم مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی استاذ عربی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ

انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس سے متعلق ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اسکو کسی بھی اعتبار سے تکلیف دینا اسکو پسند نہیں ہوتا نہ تو ذہنی طور پر نہ ہی جسمانی طور پر، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے جسکو آپ سے محبت کا دعوی ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ آپ سے متعلق اور آپکی طرف منسوب ہر شخص سے اور ہر چیز سے اسکو محبت ہو مثلا آپکی آل اولاد جنکو سید کہا جاتا ہے جو اپنا نسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاتے ہیں ان سے بھی محبت ہو انکی نفرت دل میں نہ ہو انکو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے نہ جسمانی نہ ذہنی، چاہے وہ سید فاسق ہو یا صالح ہو لیکن بہر حال وہ اپنا نسب میرے اور آپکے سردار صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اگر سید فاسق ہے تو اللہ اس سے بھی حساب لینے والا ہے لیکن اسکے اعمال بد کیوجہ سے ہم اس سے نفرت کرنیوالے نہ بنیں، اسلئے کہ جس کسی کی اولاد سے نفرت کیجائے تو والدین کو تو تکلیف پہنچتی ہے چاہے اولاد کیسی بھی ہو،
سب سے پہلے یہ بات کلئیر کرلیں کہ سادات سے محبت رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ انکے ہر عمل کو صحیح قرار دیا جائے، نہ یہ مطلب ہےکہ سادات کی محبت کی وجہ سے صحابہ کے آپسی مشاجرات پر لب کشائی کیجائے ، نہیں ! پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ سادات سے مراد صرف حضرت فاطمہ حضرت علی اور حضرات حسنین نہیں بلکہ حضرت فاطمہ کے واسطے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آج تک کی تمام تر اولاد مراد ہے ، اب سمجھیں کہ سادات سے محبت کا مطلب یہ ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہونے کے ناطے ان سے نفرت نہ کیجائے دشمنی نہ رکھی جائے انکو بے عزت نہ کیا جائے، بلکہ انکی دلجوئی کیجائے ان کا احترام کیا جائے انکی رضا حاصل کرنے کی کوشش کیجائے، اگر وہ خلاف شرع کام کریں یا خلاف مصلحت کام کریں تو انکو سمجھایاجائے انکی تائید نہ کیجائے لیکن ان سے نفرت اور دشمنی بھی نہ رکھی جائے ، بہت سے لوگ سادات سے ایسی غلیظ دشمنی رکھتے ہیں چاہے ذاتی دشمنی ہو یا سیاسی یا نظریاتی یا رشتہ داری کیوجہ سے کہ ان کے سایہ سے بھی انکو نفرت ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ ، انکو ادنی سا بھی خیال نہیں آتا کہ اس انسان کا تعلق کس عظیم ہستی سے ہے؟ یہ کس کی اولاد ہے؟ آخر اتنے احسان فراموش کیوں ہیں ایسے لوگ؟ وہ ذرہ برابر احسان نہیں مانتے کہ اس کے بابا کے صدقے یہ پوری کائنات بنی ہے اسکے بابا پر ایمان لائے بنا میرا گزارہ نہیں، اسکے بابا کو تکلیف دیکر میرا کہیں ٹھکانہ نہیں ہوگا، ایسے لوگوں کو ذرا ایک بار اپنی اولاد کے بارے میں یہی تصور کرنا چاہئے کہ اگر ہماری اولاد سے کوئی نفرت اور دشمنی رکھے تو ہم پر کیا گزرے گی؟ جو شخص ایسا کرتاہے اسکے برےاثرات اگر خدا نے چاہا تو دنیا میں بھی دیکھ لیگا، اور ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو سادات سے نفرتیں پالنے ان پر تہمتیں لگانے کے سبب اس دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے، اگر ہم اپنے تجربات وواقعات قلمبند کرینگے تو شاید یہ ایک مسلمان کی پردہ دری ہوجائے بہتر ہے کہ ہمارے بعد والے لوگ ان واقعات کو بیان کریں،
ماضی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں عراق میں ایک سید گھرانہ تھا گھر میں ایک سید زادی اور اس کے بچے تھے خاوند کا انتقال ہوچکا تھا سید زادی بچو ں کو ساتھ لئے روزی اور پناہ کی تلاش میں عراق سےسمرقند آگئی سمرقند آ کر سید زادی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ شہر میں کون زیادہ سخی ہے جو ہم کو پناہ دے دے لوگو ں نے بتایا کے شہر میں دو ہی سخی ہیں ایک حاکم وقت جو مسلمان ہے دوسرا پادری ہے ۔ سید زادی نے سوچا کے پادری تو مسلمان نہیں وہ کیا پناہ دے گا حاکم کے پاس چلتے ہیں سید زادی بچوں کو لے کر مسلمان حاکم کے پاس آئی اور کہنے لگی میں آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوں میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے میں بے بس ہوں مجھے پناہ چاہئیے حاکم وقت نے جواب دیا تہمارے پاس کوئی ثبوت کوئی سند ہے کہ تم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہو آج کل ہر کوئی کہتا ہے کہ میں سید ہوں ؟ سید زادی نے جواب دیا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپ کو دکھانے کے لئے ۔ حاکم وقت بولا میرے پاس کوئی پناہ نہیں ایرے غیرے کے لئے، جواب ملنے پر سید زادی پادری کے دروازے پے آئی ۔ سید زادی نے بتایا کے میں سید زادی ہو آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں ۔ میرا خاوند انتقال کر گیا ہے میرے ساتھ میرے بچے بھی ہیں مجھے پناہ چاہئیے ۔ پادری نے اپنی بیوی کو آواز دی ان کو عزت کے ساتھ گھر لے آؤ ۔ پادری نے سید زادی اور اسکے بچوں کو کھانا کھلایا رہنے کہ لئے چھت دی ۔ آدھی رات ہوئی حاکم وقت جب سو گیا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک سونے کے محل کے سامنے تشریف فرما دیکھا ۔ حاکم وقت نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ کس کا محل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یہ ایک ایمان والے کا گھر ہے حاکم وقت کہنے لگا میں بھی ایمان والا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تیرے پاس ایمان کا کوئی ثبوت کوئی سند ہے تو دکھا دو ۔ حاکم وقت کانپنے لگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میری بیٹی تیرے پاس آئی تو نے اس سے سند مانگی دور ہوجا میری نظروں سے ۔ حاکم وقت جب بیدار ہوا اپنے بال نوچنے لگا پچھتانے لگا جلدی سے ننگے سر پاوں پادری کے گھر پر آدھی رات کو دستک دی ۔ پادری جب باہر آیا حاکم وقت کہنے لگا آپ وہ مہمان مجھے دے دیں ۔ میں آپکو تین سو دینار دیتا ہوں پادری نے کہا تم مجھے ساری دنیا کی دولت بھی دو تب بھی نہیں ۔ اور جو تم خواب دیکھ کر آئے وہی خواب میں نے بھی دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اپنی نظروں سے دور کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری بیٹی کو سر ڈھانپنے کے لیے جگہ دی اور کھانا کھلایا آج میں نے تمہیں اور تمہارے خاندان کو بخش دیا ۔ میرا سارا خاندان کلمہ پر ایمان لا چکا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا اے پادری تم نے میری بیٹی کو پناہ دی ۔ جا ؤ تہمارا سارا خاندان جنتی ہے ۔ پادری نے حاکم وقت سے کہا ۔ جا چلا جا دیکھے ہوئے اور اندیکھے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں نے بند آنکھوں کا سودا کیا اور تو دھتکارے جانے کے بعد آرہا ہے،
سادات پر تہمتیں لگانا گالیاں دینا الزامات کی بوچھار کردینا نفرتیں کدورتیں دل میں پالنا انکے خلاف سازشیں کرنا انکے خلاف گروہ بندی کرنا بڑا سخت معاملہ ہے، ایسے لوگ نبی آخرالزماں ہمارے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دعوی محبت میں کھوکھلے ہیں،
اسکے برخلاف نبی کی نسبت سے اگر سادات سے محبت رکھی جائے شفقت کا نرمی کا معاملہ کیاجائے تو اسکے اچھے اثرات انسان خود دنیا میں دیکھ لیتا ہے حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا واقعہ بڑا مشہور ہے ایک سید زادے کی لاج رکھنے کے متعلق
جنید بغدادی ابتداء سے ہی جنیدبغدادی نہ تھے
حضرت جنید بغدادیؒ فنون سپہ گری میں یکتائے زمانہ تھے۔ خصوصاً پہلوانی میں بڑے نامی گرامی تھے اور توبہ سے پہلے بادشاہ وقت کے دربار سے منسلک یعنی شاہی پہلوان تھے۔ ایک بار ایک شخص آیا اور بادشاہ وقت سے کہا کہ میں آپ کے پہلوان (حضرت جنیدؒ) سے کشتی لڑوں گا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارا پہلوان بہت ہی مضبوط اور طاقتور ہے۔ تم دبلے پتلے کمزور آدمی بھلا اس زبردست پہلوان سے کیا لڑو گے؟ مگر اس شخص نے نہ مانا اور بہت اصرار کیا۔
آخر وقت طے ہوا اور دنگل سج گیا۔ جب حضرت جنید بغدادیؒ خم ٹھونک کر مقابل ہوئے اور دونوں کی کشتی ہونے لگی تو اس شخص نے چپکے سے ان کے کان میں کہا کہ میں سید آل رسولؐ ہوں، محتاج ہوں، اب تم کو اختیار ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے جب سید آل رسولؐ کا نام سنا تو لڑتے لڑتے گر پڑے۔ جب تو بڑا شور و غل ہوا۔ بادشاہ نے نہ مانا، دوبارہ کشتی کرائی، آپؒ نے پھر جان بوجھ خود کو گرا دیا۔ تیسری بار کشتی ہوئی تو پھر چاروں شانے چت ہوئے، یعنی سید کے مقابلے میں پیٹھ کے بل گر گئے۔ آخر بادشاہ نے اس سید صاحب کو انعام دیا اور حضرت جنیدؒ کو بلایا اور پوچھا کہ سچ کہو، یہ کیا بات تھی۔
حضرت جنید نے صاف صاف اصلی حال بیان کر دیا۔ بادشاہ بہت متعجب ہوا کہ مجمع میں اپنی ذلت اور ایک سید کی عزت گوارا کی۔ در حقیقت یہ بہت بڑی پہلوانی اور بہادری تھی۔ خدا کی شان پھر اسی رات میں رسول اقدسؐ کی ذات اقدس کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ فرماتے ہیں: شاباش اے جنیدؒ تو نے ہماری اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ ہم بھی تیرے ساتھ ایسا ہی سلوک و برتاؤ کریں گے۔
دوسرے روز حضرت جنیدؒ نے شاہی ملازمت ترک کی اور فقراء کی جستجو میں پھرنے لگے۔ آخرکار اپنے ماموں حضرت سری سقطیؒ سے دست بیعت ہو کر جملہ روحانی منازل طے فرمائیں اور عظیم الشان مقام حاصل فرمایا۔ (بحوالہ محزن اخلاق ص 441)

جاری۔۔۔

No Comments

Leave a Reply