Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

مولانا جعفر مسعود ندوی: ایک عظیم علمی شخصیت کی مسعود وفات

مولانا جعفر مسعود ندوی: ایک عظیم علمی شخصیت کی مسعود وفات

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
www.atasamiee.in

15 جنوری 2025 کو پیش آنے والا حادثہ، جس میں مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی قیمتی زندگی سے محروم ہو گئے، علمی اور دینی حلقوں کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ مولانا کی زندگی قرآن و سنت کی تعلیم، عربی ادب کی خدمت، اور اسلامی فکر کی ترویج کے لیے وقف تھی۔ ان کی وفات نے ندوۃ العلماء، حسنی خاندان، اور دینی حلقوں کو ایک عظیم رہنما سے محروم کر دیا ہے۔

خانوادۂ حسنی: ایک شاندار علمی ورثہ

مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کا تعلق رائے بریلی کے معروف حسنی خاندان سے تھا، جس نے کئی نسلوں تک اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ 13 ستمبر 1965 کو تکیہ، رائے بریلی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی بھانجے اور عربی ادب کے ماہر ادیب و صحافی تھے۔ اس خاندان نے شاہ علم اللہ، سید احمد شہید، اور مولانا علی میاں ندوی جیسے عظیم المرتبت افراد پیدا کیے۔

علمی سفر کا آغاز

مولانا جعفر مسعود نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز اپنے وطن، تکیہ رائے بریلی میں قرآنِ پاک حفظ کرنے سے کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد، آپ نے ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ نے عربی زبان و ادب کے ساتھ علومِ شرعیہ میں مہارت حاصل کی۔
• 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی تکمیل کی۔
• 1986 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ایم اے کیا۔
• 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ “جامعة الملك سعود” سے ٹیچرز ٹریننگ کورس مکمل کیا۔

تدریسی و تصنیفی خدمات

مولانا نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مدرسہ عالیہ عرفانیہ، نخاس، لکھنؤ سے تدریس کے شعبے میں کیا۔ آپ ندوۃ العلماء کی شاخ میں تفسیر، حدیث، اور فکرِ اسلامی جیسے مضامین پڑھاتے رہے۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
آپ 2019 سے ندوۃ العلماء کے معروف عربی جریدے “الرائد” کے مدیر اعلیٰ (رئیس التحریر) کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ عربی زبان پر آپ کو غیر معمولی عبور حاصل تھا، اور آپ کی تحریریں عربی ادب کا شاہکار سمجھی جاتی تھیں۔

اہم تصانیف و تراجم

مولانا جعفر مسعود کی تحریریں فکرِ اسلامی کی تشریح اور مغربی افکار کی تردید میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے کئی اہم کتابوں کا ترجمہ کیا اور خود بھی کئی کتابیں تصنیف کیں:
1. في مسيرة الحياة (حضرت علی میاں ندوی کی کتاب “کاروانِ زندگی” کا عربی ترجمہ)
2. الشيخ محمد يوسف الكاندهلوي؛ حياته ومنهجه في الدعوة (محمد الحسنی ندوی کی کتاب کا عربی ترجمہ)
3. الإمام المحدث محمد زكريا الكاندهلوي ومآثره العلمية (حضرت علی میاں ندوی کی کتاب کا عربی ترجمہ)
4. دعوة للتأمل والتفكير (دعوتِ فکر و نظر)
5. بصائر (حضرت علی میاں ندوی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ)

شخصیت کے نمایاں پہلو

مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کی زندگی سادگی، علم دوستی، اور دین کی خدمت کا عملی نمونہ تھی۔
• سادگی: آپ کی طرز زندگی نہایت سادہ اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی۔
• اخلاق: مولانا ہر چھوٹے بڑے سے شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے، اور ان کا اخلاق ہر ایک کے لیے نمونہ تھا۔
• علم و قلم: ان کی تحریریں شستہ، صاف، اور مدلل ہوتی تھیں، جن میں اسلامی فکر کی ترویج اور باطل نظریات کی تردید نمایاں تھی۔
• طلبہ کی رہنمائی: مولانا نہ صرف ایک بہترین استاد تھے بلکہ طلبہ کی فکری اور عملی رہنمائی میں بھی پیش پیش رہتے۔

اخلاق و کردار

مولانا جعفر مسعود ندوی کی سب سے بڑی خوبی ان کا اخلاق و کردار تھا۔ وہ عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے۔ ان کے قریبی ساتھی اور شاگرد اکثر ان کی اس خوبی کا ذکر کرتے کہ مولانا ہر انسان سے محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
مولانا کی زندگی کئی واقعات سے عبارت ہے جو ان کی عظیم شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں:

1. طلبہ کی رہنمائی

مولانا جعفر مسعود ندوی طلبہ کے لیے ایک مثالی رہنما تھے۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم مالی پریشانی کی وجہ سے اپنی تعلیم چھوڑنے کا سوچ رہا تھا۔ مولانا نے نہ صرف اس کی مالی مدد کی بلکہ اسے اس قدر حوصلہ دیا کہ وہ طالب علم بعد میں ایک کامیاب عالم بن کر سامنے آیا۔

2. خدمت خلق

مولانا ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے آگے رہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ کئی غریب خاندانوں کی خاموشی سے کفالت کرتے تھے، اور ان کی یہ خدمت کبھی ظاہر نہیں ہونے دی۔

المناک حادثہ

15 جنوری 2025 کو، ایک سڑک حادثے میں مولانا کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔شراب کے نشے میں دھت ایک کار سوار نے مولانا کی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر ماری، اور یہ حادثہ ان کی شہادت کا سبب بن گیا۔ یہ حادثہ نہ صرف ان کے خاندان بلکہ علمی دنیا کے لیے ایک ناقابلِ برداشت صدمہ ہے۔
“ایسا لگتا ہے کہ علم و ادب کا ایک روشن چراغ بجھ گیا، لیکن اس کی روشنی ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔”
مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کی وفات پر اہلِ علم اور طلبہ غم سے نڈھال ہیں۔ ندوۃ العلماء اور حسنی خاندان نے ایک عظیم فکری رہنما کھو دیا ہے۔ ان کے قلم کی روشنی، ان کی تدریسی خدمات، اور ان کے اخلاقی کردار ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین

No Comments

Leave a Reply