Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

کانوڑ یاتریوں کیلئے سبیلیں لگانا اور ایک اشکال کا عقلی جواب

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی استاذ معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ ضلع میرٹھ یوپی الہند

کانوڑ یاتریوں کیلئے پانی کی سبیل لگانا اور ایک اشکال کا عقلی جواب

وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ (سورہ نساء)
وہ (کافر) تو تمنا کرتے ہیں کاش تم بھی انکی طرح کافر بنجاؤ (اگر ایسا ہوا ) پھر تو اور وہ برابر ہوجاؤگے لہذا تم انکو دوست مت بناؤ،

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلی وَلَا نَصِيرٍ (سورہ بقرہ)
یہودی اور نصرانی آپ سے ہرگز خوش نہیں ہونگے (اسمیں تمام غیر مسلم شامل ہیں) یہانتک کہ آپ انکے مذہب کی اتباع کرنے لگو (انکا مذہب اختیار کرلو) آپ کہدیجئے ہدایت تو صرف اللہ ہی کی ہدایت ہے، اور اگر آپ نے انکی خواہش کی پیروی کی علم ہونے کے باوجود تو پھر آپکا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ حمایتی،
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے انکے کفریہ شرکیہ اعمال سے رضا رکھنا یا اسمیں تعاون کرنا کسی صورت جائز نہیں،

انکے مذہبی امور میں کسی بھی طرح معاون بننا کفر سے رضا کی دلیل ہے، ارتداد کی طرف پہلا قدم ہے ،اسلئے کہ کفر کی برائی کا دل سے نکل جانا کفر ہے، تشبہ بالکفار یا انکے خالص مذہبی امور میں معاونت یو شرکت یا تائید وحدت ادیان جیسے باطل نظریہ کی طرف بڑھتا قدم ہے ،

پھر اشکال کیا جاتا ہے کہ اسلام اتنا تنگ نظر ہے جو اپنے ماننے والوں کو غیروں کے ساتھ انکے مذہب میں ذرہ برابر ہمدردی کی اجازت نہیں دیتا؟ غیر مسلم لوگ تو ہماری عید میں بھی شامل ہوجاتے ہیں،
جواب یہ ہیکہ اسلام تنگ نظر نہیں ہے اسلام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ جو حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے اسکی مثال کہیں نہیں ملتی ، آگے قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ معلوم ہوجائیگا اور باقی اسلام کا مطالعہ کرنے سے ، لیکن جان لو کہ ہر مذہب کا اپنا اپنا اسٹینڈرڈ ہے جیسے ہر شخص کا اپنا اپنا اسٹینڈرڈ ہے،
ایک مثال سے سمجھئے ایک آدمی کی بیوی ہے جو اپنی بیوی سے سارے محلے کو خوش رکھتا ہے اور ایک وہ ہے جو اپنی بیوی کو صرف اپنے لئے ہی حلال سمجھتا ہے دوسرا اسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اسکو بالکل برداشت نہیں ، آپ بتائیے پہلا والا سیکولر شوہر اچھا ہے یا دوسرا تنگ نظر؟
اولا تو کوئی شخص نہیں چاہیگا کہ اسکی بیوی پورے محلے کی داشتہ بنے ثانیا کوئی ایسے آدمی کو اچھا نہیں کہیگا، ورنہ ہونا یہ چائیے کہ جب تو اپنے لئے اپنی بیوی کو حلال سمجھتا ہے تو دوسروں کیلئے کیوں نہیں ؟ اتنے تنگ نظر کیوں ہو کہ بس اپنا بھلا چاہتے ہو؟ تو جب انسان اس شرکت کو برداشت نہیں کرتا تو اللہ اپنی خدائی میں شرکت کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ جب انسان اپنی چیز میں تنگ نظر ہے تو اسلام کو کیوں دوش دیا جارہا ہے؟
چلو تھوڑا نیچے اترکر ایک دوسری مثال دیکھتے ہیں
ایک شخص وہ ہے جو دودھ میں پانی ملاکر بیچتا ہے اور سستا بیچتا ہے اور اسکو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، بس اسکا فائدہ ہونا چاہئے، دوسرا وہ آدمی ہے جو ایک بوند پانی ملانا بھی پسند نہیں کرتا ، اور مہنگا بیچتا ہے آپ بتائیے کون بہتر ہے؟ کون بدبخت ہے؟ شدھ دودھ بیچنے والا یا سیکولر مطلب ملاوٹ کا دودھ بیچنے والا؟
جو عقلمند لوگ ہونگے وہ اس دوسرے شخص سے مہنگا دودھ لینا پسند کرینگے اور پہلے والے کو گالی دینگے،
اسلام بھی یہی چاہتا ہے اور یہی اسلام کا اسٹینڈرڈ اور موقف ہے کہ شرک وکفر کی ادنی ملاوٹ کو بھی پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ تمام انسانوں کو تمام لوگوں کو شدھ (خالص) مذہب اور عقیدہ دے اور اسکے ماننے والے ہرجائی نہ ہوں، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا کچھ بھی اسٹینڈرڈ ہو ہمیں اس سے کیا لینا؟ انکے یہاں جائز ہوگا دوسرے مذہب کی ملاوٹ کرنے کی ، ملاوٹ کا مال بیچنے کی دوسروں کے مذہبی تہواروں میں شامل ہونے کی، اسلام شدھ اور خالص پر یقین رکھتا ہے اور بس


اسلام غیروں کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک سے منع نہیں کرتا ، بلکہ اسلام تو اسکی تعلیم دیتا ہے فرمایا
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ. (الْمُمْتَحِنَة، 60: 8)
ترجمہ: اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.
لیکن اس ہمدردی اور حسن سلوک کی بھی حد ہے،
جیسے کہ ہر جگہ حد ہوتی ہے،
مثلا انسان اپنے گھر آنیوالے مہمان کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے، اسکو ہر ممکن آرام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اسکے لئے اچھے سے اچھا کھانا بنواتا ہے، اسکی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے ، اس سے پوچھتا ہے آپکو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟
لیکن ان تمام حسن سلوک کی ایک حد ہے
کوئی انسان مہمان کی ہمدردی میں اپنی بیوی اسکے پاس رات گزارنے کیلئے نہیں چھوڑتا، کوئی انسان اپنی لڑکی کسی مہمان کی خدمت کیلئے نہیں چھوڑتا، بات شرم کی ہے لیکن سمجھانے کیلئے بطور مثال کہہ رہا ہوں کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اس حد کو پھلانگنے سے پریشانیاں جنم لیتی ہیں، معاملہ درہم برہم ہوجاتا ہے ،
اسی طرح ملک کا وزیر اعظم دوسرے ممالک کا سفر کرتا ہے وہاں کے حکام کو اپنے یہاں بلاتا ہے انکی ہر طرح دیکھ بھال اور خدمت پر توجہ دیتا ہے اور پوری دنیا میں کوریج کراتا ہے کہ فلاں ملک کے وزیر اعظم ہمارے یہاں آئے ،ہر طرح سے انکے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہے لیکن اسکی بھی حد ہے،
کوئی وزیر اعظم اپنے یہاں آئے دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو اپنے ملک کے راز نہیں دیتا، کوئی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کی تعظیم میں اپنا منصب انکو نہیں سونپتا، آخر کیوں ؟ اسمیں تو سامنے والے کی اور بھی تعظیم ہے؟ اور اسطرح کرنے سے وہ اور بھی خوش ہوگا بہت مال ودولت بھی دیگا ،

آخر کیوں نہیں کرتا ایسا؟ کیونکہ سب جانتے ہیں ہر چیز کی ایک حد ہے اس سے آگے بڑھے تو ملک جائیگا عہدہ جائیگا ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائیگی اسی طرح غیروں کے ساتھ حسن سلوک کی ایک حد ہے اس سے آگے بڑھے تو ایمان جائیگا دنیا بھی جائیگی آخرت بھی،
وہ حد کیا ہے؟
تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:

(1)موالات:یعنی دوستی،
(2)مدارات:یعنی ظاہری خوش خلقی ،
(3)مواسات : یعنی احسان و نفع رسانی.

ان معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور آیت لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ اور لَا تَتَّخِذُوٓاْ ءَابَآءَكُمْ وَإِخْوَٰنَكُمْ أَوْلِيَآءَ میں یہی مراد ہے اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے، ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے. اپنی مصلحت و منفعت مال یا جاہ کے لیے درست نہیں اور بالخصوص جب کہ ضرر دینی کا بھی خوف ہوتو بدرجۂ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا. [بیان القرآن : (1/204)]
کسی سے حسن سلوک کے چکر میں اپنا دینی تشخص اور شناخت کو ختم کردینا یا غیروں کے مذہبی امور کو انجام دینا یا غیروں سے مشابہت اختیار کرلینا کسی صورت جائز نہیں،
ہم آئے دن دیکھتے ہیں عوام تو عوام ، خواص جنکو مولوی کہا جاتا ہے کبھی دیوالی پر چراغاں کرتے نظر آتے ہیں ، کبھی یوگا کرتے نظر آتے ہیں کبھی یوم یوگا مناتے نظر آتے ہیں، کیا ہے یہ سب؟
اب کانوڑ یاترا چل رہی ہے اس کانوڑ یاترا کے یاتریوں کیلئے بہت سے مولوی اور مولوی نما لوگ پانی کی سبیلیں لگارہے ہیں، انکی مرہم پٹی کا خیال رکھ رہے ہیں، اسی کانوڑ یاترا میں ہریدوار کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے، آپ ایسے لوگوں کو گلے لگا رہے ہو؟
اسی کانوڑ یاترا میں ایک مسلم لڑکے نے روڈ پر لگے کانوڑ کے لنگر سے کھانا کھا لیا تو اسکو بری طرح پیٹا گیا،
کانوڑ میں جانیوالے اکثر لوگ بدمعاش نکھٹو اوباش اور فسادی ذہن کے ہوتے ہیں، بلند شہر میں ان ہی کانوڑیوں نے پولیس کو بری طرح پیٹا،
دہلی کے اندر ایک کار والے کی کار پلٹ دی بس ذرا سی کانوڑ کی گاڑی سے لگ گئی تھی،
ہرسال اس یاترا کے دوران ہنگامے، لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات ہوتے ہیں، جن میں ہرسال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اسے دیکھ کر ہر باشعور شخص یہ سوچنے کےلیے مجبور ہوجاتا ہے کہ شیوبھکتوں کی یہ یاترا واقعی دھارمک یاترا ہے یا آتنک یاترا، اور یہ شیوبھکت واقعی دھرم پریمی ہیں یا آتنک پریمی؟
اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے کچھ حدود مقرر کی ہیں “ ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون”
اگر ہمدردی کا اتنا ہی شوق کے تو اپنے گلی محلے اور رشتے داروں میں نامعلوم کتنے ضرورتمند موجود ہونگے انکی ضروریات کا خیال کیجئے،
کانوڑیوں کیلئے سبیل لگانا یا طبی کیمپ لگانا تعاون علی الاثم ہے غیروں سے مشابہت ہے اسلئے ناجائز ہے، محرم میں پانی کی سبیلیں لگانا تشبہ بالروافض کی وجہ سے ناجائز ہے، آپ عام دنوں میں اپنے محلے کے ہندؤوں کے پاس جائیے انکی مزاج پرسی کیجئے، اظہار ہمدردی کیجئے، بہت اچھا ہے ہم نے بھی کیا ہے لاک ڈاؤن میں ہم نے مسلموں کے علاوہ غیر مسلموں میں بہت راشن تقسیم کیا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے، ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک غیر مسلم بیمار شخص کے گھر راشن پہنچایا ہے،
لیکن جیسا کہ کہا کہ ایک حد کے اندر کام ہو تو بہتر ہے،

No Comments

Leave a Reply