Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

مسجدوں میں دعوتوں کا اہتمام

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی المظاہری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسجدوں میں دعوتوں کا اہتمام

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بعدالتحیہ عرض خدمت یہ ہیکہ علماء اور مقتداء حضرات کو ایسے امور سے بچنا چاہئے جو آگے چل کر کسی بدعت یا رسم کا سبب بنجائیں اور لوگ ہمارے فعل کو سند بنالیں، لوگ علماء کے فعل کو سند بناتے ہیں،
“ چوں کفر ازکعبہ برخیزد کجا باشد مسلمانی؟”
پھر دیر ہونیکے بعد اصلاح مشکل ہوجاتی ہے اور اسی طرح آہستہ آہستہ بدعتیں رواج پاتی ہیں، شروع میں تو تبلیغی حضرات صرف اپنا کھانا مسجد میں پکایا کرتے تھے پھر انکی دعوتوں کا رواج نکلا پھر مسجد ہی میں دیگر حضرات کی دعوتوں کا رواج زور پکڑنے لگا ، اور یہ دعوت کبھی تو اہل محلہ جماعتی ساتھیوں کے ساتھ دیگر لوگوں کی بھی کرتے ہیں اور کبھی جماعت والے ہی دیگر حضرات کی دعوت کرتے ہیں، اور اسمیں علماء وعام سب ہی شامل ہیں ،اور آگے چل کر نہ معلوم کیا ہو، اسلئے چشمے کے ندی بننے سے پہلے اسکواسکے سرے سے ہی بند کرنا ضروری ہے اگر علماء بھی عوام کے ہمنوا بن گئے تواس تمام بے ادبی کا وبال ہمارے ذمہ ہوگا،
اور اگر ہم اسپر یا دیگر منکرات پر نکیر کی عادت ڈالیں گے تو اسپر عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ہمیں ملےگا،قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بهامن بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء. اصلاح معاشرہ بلاخوف لومة لائم اور لالچ ومفادات کو اور تالیف القلوب کو ایک طرف رکھکر ضروری ہے، ایسی تالیف قلوب کی اجازت نہیں جس سے دین پر زد پڑے، (من رأى منكم منكراً فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
ويقول تعالى: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ [التغابن: 16].

مساجد کا ادب واحترام کیسا ہونا چاہئے یہ ہم پر مخفی نہیں ہے، مساجد اللہ کی عبادت کیلئے ہیں ان میں کسی قسم کا ایسا فعل جو اسکی حرمت کو ٹھیس پہنچائے جائز نہیں اسی لئے مسجد میں دنیوی باتوں کی اجازت نہیں، مساجد میں مسافر اور معتکفین یعنی جو اپنے گھر نہیں جاسکتے انکے علاوہ کا کھانا کھانا یا دعوتیں کرنا درست نہیں، اور حیلوں کے ذریعہ سے اسکا جواز تلاش کرنا فقط حیلہ ہے جو عنداللہ مقبول نہیں اسلئے کہ مقصود اصلی تو کچھ اور ہے، انما لامرئ مانوی، فقہاء نے عتکاف کی نیت سے مسجد میں کھانے پینے کی جو اجازت دی ہے وہ مجبوری کی حالت میں جب اسکے علاوہ چارہ نہ ہو اور اصل معتکفین یا مسافر کھانے پر اصرار کریں اور یہ مسجد میں نماز کیلئے آیا ہے تو اسکے لئے گنجائش نکالی ہے کہ اعتکاف کی نیت کرلے تاکہ مسجد کی بے ادبی کرنیوالا شمار نہ ہو، لیکن باقاعدہ طور پر اہل محلہ کی دعوت کرنا مساجد میں اور حیلہ اختیار کرنا اعتکاف کا تو یہ درست نہیں اسلئے کہ اصل مقصود تو کھاناہے نہ کہ اعتکاف اگر اعتکاف مقصود ہے تو اس معتکف کو چاہئے کہ کبھی دوتین گھنٹے کیلئے بغیر کھانے کے بھی اعتکاف کرلیا کر، بہر حال ہم سب جانتے ہیں کہ یہ محض حیلہ ہے، جب ہم مسجد کی بے ادبی اور احکامات الہی کی خلاف ورزیکے حیلے تلاش کرینگے تو اللہ بھی ہمیں حیلوں حیلوں سے رسوا کریگا،اللہم احفظناصحابہ کرام اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے حیلے ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم اس سے فرار کے حیلے تلاشنے میں لگے ہوتے ہیں،
آجکل مسلمانوں میں دیگر خرافات کی طرح مساجد میں دعوتوں کا رواج بھی چل پڑا ہے جسپر قدغن لگانا بلاخوف لومۃ لائم یہ علماء کی ذمہ داری ہے، دعوتوں میں مساجد کا احترام باقی نہیں رہتا بلکہ مساجد ایک ریسٹورینٹ کا نمونہ پیش کرتی ہیں، ہمیں اس سے پرہیز کرنا چاہئے اگر دعوت کا اہتمام کرنا ہو تو کسی گھر کا انتخاب ضروری ہے، جس مقصد کیلئے خروج ہواہے اس مقصد پر توجہ ہونی چاہئے ورنہ تو یہ کام محض ایک رسم بن کر رہ جائیگا بلکہ بنتا جارہاہے، اسیطرح مسجد کے حصے میں جو شرعی مسجد کہلاتی ہے اسمیں کھانا پکانا کسی کیلئے بھی جائز نہیں کیونکہ آداب مسجد کے خلاف ہے اس سے پرہیز ضروری ہے، اسکے لئے مسجد سے خارج جگہ کا انتخاب کیاجائے، مروجہ تبلیغ کا مقصد دین اسلام پر عمل کرنا اور کرانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہذا عملی زندگی میں اسکا ظہور ضروری ہے، غلط پھیلی ہوئی اور باتوں اور افراط و تفریط اور غلو کا شکار لوگوں کی اصلاح ضروری ہے، امیدہیکہ احقر اپنا مقصد واضح کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوگا، لوگوں کا بتانا چاہئے اور عملی طور پر دکھانا چاہئے لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق
ذیل میں اہل علم کی مفید باتیں مذکور ہیں 👇🏻

العبدالضعیف محمدعطاءاللہ سمیعی غفراللہ لہ وعفاعنہ

عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 10368
عنوان:
مسجد میں کھانا پینا کیسا ہے؟ قاری صاحب مسجد میں نوجوان لڑکوں کو اکٹھا کرتے ہیں ان کونمازوغیرہ سکھانے کے لیے تو پھر کھانا پینا بھی ہوتاہے۔ اگر کھانا پینا نہ ہو تو شاید لوگ نہ آئیں۔ یہ روزانہ کا معمول ہے۔ مسجد کے آداب بھی مختصر تحریر فرمائیں۔
سوال:
مسجد میں کھانا پینا کیسا ہے؟ قاری صاحب مسجد میں نوجوان لڑکوں کو اکٹھا کرتے ہیں ان کونمازوغیرہ سکھانے کے لیے تو پھر کھانا پینا بھی ہوتاہے۔ اگر کھانا پینا نہ ہو تو شاید لوگ نہ آئیں۔ یہ روزانہ کا معمول ہے۔ مسجد کے آداب بھی مختصر تحریر فرمائیں۔
جواب نمبر: 10368
بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی: 196=180/ ب

مسجد میں صرف معتکف کے لیے کھانے پینے کی اجازت ہے، ہرایک کے لیے کھانے پینے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مسجد میں کھانا سونا مکروہ ہے، اسی لیے نوجوانوں کو اکٹھا کرکے کھانا کھلانے کا معمول بنانا درست نہیں ہے، جسے توفیق ہوگی وہ نماز کے لیے آئے گا۔ مسجدسے متصل اگر خارج جگہ ہو یا امام مسجد کے کمرہ میں گنجائش ہو تو وہیں پر کھلادیں: ویکرہ النوم والأکل فیہ لغیر المعتکف (الفتاویٰ العالمگیریة، الباب الخامس في آداب المسجد، کتاب الکراھیة)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

مساجد میں کھانا کھانے یا کھلانے کا حکم

سوال

مساجد میں کھانا یا کسی کو کھلانا کیسا ہے؟

جواب

واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ مسجد اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں ہے، البتہ صرف مسافر اور معتکف کے لیے بوجہ ضرورت مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کبھی چھوٹی موٹی چیز (مثلًا کھجور یا پانی وغیرہ) کھانے کی نوبت آجائے تو معتکف اور مسافر کے علاوہ عام آدمی بھی اعتکاف کی نیت کر کے کھا پی سکتا ہے، لیکن اگر معتکفین یا مسافر لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کسی بھی عنوان سے کوئی دعوت کرنی ہو تو اس دعوت کا انعقاد مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ کرنا چاہیے، مساجد میں بلاضرورت کھانے کی دعوتوں کا انعقاد کرنا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی مشاہدہ میں کثرت سے آتی رہتی ہے کہ مساجد میں دعوت کے انعقاد سے مسجد کے دیگر آداب کی بھی بہت زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے اور دعوتوں کے دوران لوگ شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لایعنی گفتگو کر کے مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ اگر مسجد میں معتکفین یا مسافر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہو اور کوئی شخص جو نہ تو معتکف ہو اور نہ مسافر ہو وہ اس کھانے میں شریک ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو کر یا داخل ہونے کے بعد اعتکاف کی نیت کر کے کچھ نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے کے بعد، پھر کھانے میں شریک ہوجائے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 661)
’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.
(قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘
الفتاوى الهندية (5/ 321):
’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ‘‘
فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144204201127
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 154386
عنوان: مسجد كے كسی حصہ میں كھانا وغیرہ بنانا كیسا ہے؟

سوال: حضرت، ایک ایسی مسجد جس میں حرم سے دور بالائی منزلہ پر اللہ کے راستے میں چلنے والی جماعتوں کا کھانا بنانے کے لیے پہلے سے ایک کونے میں جگہ مختص ہے، اللہ کے راستے میں چلنے والے لوگ وہاں کھانا پکاتے ہیں، کھاتے ہیں، نیز بالائی منزلے پر ہی سوتے ہیں۔ تو اللہ کے راستے میں چلنے والی جماعتوں کے لیے اعتکاف کی نیت کرکے مسجد کے اس حصے میں درج بالا کام کرنے میں کیا کوئی حرج ہے؟ برائے مہربانی شرعی روشنی میں سوال کا جواب ارشاد فرمائیں۔ جزاک اللہ

جواب نمبر: 154386

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1518-1426/B=1/1439
مسجد کے حدود میں یعنی جہاں تک نماز پڑھنے پڑھانے کے لیے مسجد کا حصہ نیچے یا اوپر بنایا گیا ہے وہ شرعاً مسجد ہے۔ مسجد کا احترام کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ ایسی جگہ کے کسی کونے میں جماعت والوں کے لیے کھانا بنانا جائز نہیں، مسجد نیچے تحت الثریٰ تک اور اوپر آسمان تک مسجد ہوتی ہے اس کا احترام بہرحال ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ مسجد کے حصہ میں کھانا پکانا خواہ اعتکاف کی نیت کرکے ہو مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

وماعلینا الاالبلاغ

No Comments

Leave a Reply