Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

لڑکیوں کیلئے کونسی تعلیم فرض کفایہ ہے؟

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی استاذ معہدالشریعة الاسلامیہ اکرام نگر موانہ

لڑکیوں کیلئے کونسی تعلیم فرض کفایہ ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے علم دین بقدر ضرورت حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے،” طلب العلم فریضة علی کل مسلم”باقاعدہ ڈگری لینا اور کورس کرنا ضروری نہیں،
عورتوں کیلئے سب سے بہتر بات یہ ہیکہ وہ علم دین محلہ میں کسی اچھی دیندار عورت سے حاصل کریں جو قرآن صحیح پڑھتی ہو پرہیز گارہو، اسی طرح اگر کسی مدرسہ میں لڑکی کو بھیجنا ہے تو بس اسکا دھیان رہے کہ نماز روزہ کرنا اسپر آجائے قرآن صحیح طرح پڑھ لیتی ہو اور دین کی ضروری باتیں اسکو معلوم ہوجائیں ، ناظرہ قرآن کریم اور چند چھوٹی سورتیں حفظ کرلینے کے ساتھ بہشتی زیور کا پڑھ لینا عورت کیلئے کافی ہے اس سے اسکو بقدر ضرورت دین کی سمجھ آجاتی ہے اور اسکو آداب سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے، نیز اسطرح علم دین حاصل کرنے سے انکے اندر تکبر اور گھمنڈ بھی نہیں پیدا ہوتا،
عورت جیسا کہ معلوم ہے ناقص العقل ہے تو علم دین کا باقاعدہ کورس کرنے سے حافظہ اور عالمہ بننے سے اسکے اندر تکبر پیدا ہوجاتا ہے، تربیت انکی ہوتی نہیں ہے نہ انکو عمل سے کوئی واسطہ ہوتا ہے بس انہوں نے کورس کرلیا ہے اب وہ اپنے کو سب سے بالاتر عورت سمجھنے لگتی ہیں پھر وہ اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتیں، حتی کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد انکا نباہ سسرال میں ساس سسر جیٹھانی دیورانی سے نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ عالمہ ہیں اور ہر چیز میں برتری چاہتی ہیں، کیا علم کا تقاضہ یہی ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھو؟ اپنے کو بالاتر سمجھو؟ سسرال والوں کو کمتر سمجھو؟ کسی کی نہ عزت نہ لحاظ،

انکی تربیت کی سخت ضرورت ہے ورنہ تو یہ لڑکیاں علم دین کی توہین کا سبب بن رہی ہیں

حقیقت سے نظر چرائی نہیں جاسکتی، آپ چاہے لاکھ زبان سے انکار کرتے رہیں ان حقائق کا، لیکن آپکا دل اسکی گواہی دے رہاہوگا کہ باتیں سو فیصد درست ہیں، حالات ایسے ہی ہیں،
میں یہ اکثر کی بات کررہا ہوں ورنہ بہت سی عالمہ بڑی پرہیزگار دیندار اور بردبار ہوتی ہیں، لیکن اکثر کا حال برا ہے اور آپ نے بھی اکثر لوگوں کو خاص طور سے مولویوں کو کہتے سنا ہوگا کہ عالمہ سے نکاح نہ کرنا ، اور یہ بات خوب عام ہے، وجہ اسکی یہی انکا نکما پن ہے انکی اکڑ ہے انکا گھمنڈ ہے بات بات پر شوہر سے سسرال سے بات کو خراب کرنا ہے، سسرال میں دراڑ ڈالنا ہے، چنانچہ مفتی شبیر دامت برکاتہم شاہی مرادآباد ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لڑکیوں کے مدارس کے بارے میں شروع میں یہ سمجھا جارہاتھا کہ کالج اور اسکولوں کے حیا سوز ماحول سے لڑکیوں کو نکال کر دینی ماحول میں وقت گذار نے کا نظم کیا جائے؛ لیکن تجربہ سے اس کے بر عکس ثابت ہوا، اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان مدارس میں صاحب نسبت ولی صفت عورتیں معلمات کی حیثیت سے بہت ہی کم ہیں ، جو حضرات اکابر اور مشائخ و بزرگوں کے طور و طریق پر عمل پیرا ہو کر بچیوں کو تربیت بھی دیتیں اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگی کوبھی اتار دیتیں ، تہجد اورإنابت إلی اللّٰہ اور سحر گاہی عبادت، اللہ کے دربارمیں گریہ وزاری خود بھی کرتیں اور ماحول کی لڑکیوں کو بھی تربیت دے کر قرآن وحدیث کی عامل بناتیں ، مگر ان مدارس میں ایسی عورتیں بہت کم ہیں ، جب ایسی صورت حال ہے تو علماء کو ان مدارس کے بارے میں خاموشی اختیار کرنی پڑرہی ہے، کسی قسم کا مشورہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے؛ اس لئے ہم اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتے، باقی آپ کو اختیار ہے۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۱۶؍جمادی الثانیہ ۱۴۲۳ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۶؍۷۷۰۲)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱۶؍۶ ؍۲۳ ۱۴ھ

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہٗ نے آج سے تقریباً سوسال پہلے فرمایاتھا کہ:اگر مدرسۃ البنات کھولوگے تو سر پکڑکرروؤگے،

میرا موقف حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے اور تجربہ کی بنیاد پر یہی ہے کہ لڑکیوں کو نہ حافظہ بناؤ نا عالمہ بناؤبلکہ پرانے طریقے پر کسی معتبر ملانی سے یا کسی مدرسے میں استانی سے ناظرہ قرآن ، چند سورتیں حفظ ، اور بہشتی زیور پڑھادو یہی مناسب ہے ورنہ عالمہ اور حافظہ بننے کے بعد جہاں جائینگی گالیاں اور بددعائیں ماں باپ کو ملنی ہیں، الایہ کہ اپنے علم کے تقاضے پر عمل کرنیوالی ہوں،
انکے برخلاف جو لڑکیاں روایتی انداز میں گھروں میں کسی ملانی سے پڑھتی ہیں وہ اپنے سسرال میں خوب عزت کماتی ہیں وہ خوب گھر کو سنبھالتی ہیں، وہ عالمہ سے زیادہ اچھے انداز سے خود بھی دوسروں کے حقوق ادا کرتی ہیں بڑوں کی عزت کرتی ہیں اور اپنے ماں باپ کا نام بھی روشن کرتی ہیں اور دوسروں کو بھی یہی سبق دیتی ہیں،
یہ بات ہوئی لڑکیوں کی دینی تعلیم کے متعلق کہ لڑکیوں کو دینی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے لیکن اسکے لئے پرانا طریقہ اپنایا جائے،

اب رہی بات انکی دنیوی تعلیم کی تو جاننا چاہئے کہ اسوقت میڈیکل ایک ایسا شعبہ ہے کہ جسمیں مردو عورت سب کی اور سب سے اختلاط کی ضرورت ہے، لہذا جہاں عورت کی ضرورت ہو وہاں عورت کا مہیا ہونا ضروری ہے، مثلا عورت کے علاج معالجہ ایکسرے الٹراساؤنڈ، دانتوں کا علاج آنکھوں کا علاج غرج جتنے علاج ہیں انمیں مریض عورت کیلئے عورت ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے،

اسلئے کہ مثلا اگر عورت بیمار ہے تو ایسا نہیں ہے کہ شوہر اپنی نبض دکھا کر بیوی کی دوائی لے آئے، اسکے لئے تو مریض عورت کو خود جانا پڑیگا، اگر عورت حاملہ ہے تو ایسا نہیں ہے کہ کوئی اور ہسپتال جاکر ڈلیوری کرالائے اور عورت گھر پر موجود رہے ایسا نہیں ہوگا، اسکے لئے تو عورت کو خود جانا پڑیگا، برخلاف دیگر کاموں کے مثلا اگر مکان بنانا ہے تو مرد جاکر مکان کا نقشہ بنواکر لاسکتا ہے، عدالت میں کیس لڑنا ہے تو مرد وکیل اسکو لڑسکتا ہے، عورت کا ہی وکیل بننا ضروری نہیں ہے،
میڈیکل کا شعبہ ایسا شعبہ ہے جسمیں مردوعورت سب کی ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ مریض عورت کیلئے لیڈی ڈاکٹر اور نرس کی ضرورت ہے، اسلام نے انتہائی مجبوری میں جب کوئی لیڈی ڈاکٹر نہ ہو تب مرد ڈاکٹر سے علاج کی اجازت دی ہے معلوم ہوا کہ لیڈی ڈاکٹر کا ہونا نرسوں کا ہونا اسی طرح الٹراساؤنڈ ایکسرے وغیرہ جتنے میڈیکل سے متعلق شعبے ہیں سب میں لیڈی ایکسپرٹ کا ہونا ضروری ہے،
میں تو کہتا ہوں کہ میڈیکل لائن میں میڈیکل سے متعلق ہر شعبے میں عورت کا ہونا فرض کفایہ ہے، اگر اسکو کوئی نہیں کریگا کوئی اسپر توجہ نہ دیگا اور مسلم عورتیں غیر مردوں کے سامنے اپنے بدن کو ظاہر کرتی رہینگی تو سب مسلمان گنہگار ہونگے، لہذا اپنی لڑکیوں کو میڈیکل لائن کی تعلیم دلائیے انکو ماہر ڈاکٹر بنائیے سرجن بنائیے ماہر نرس بنائیے، ماہر ڈینٹسٹ بنائیے ماہر کارڈیالوجسٹ بنائیے، الٹراساؤنڈ اور ایکسرے کرنے والی بھی عورت ہونی چاہئے غرض جتنے ڈاکٹری کے شعبے ہیں انمیں اپنی لڑکیوں کو بہنوں کو آگے بڑھائیے جس شعبے میں انکا ذہن چلتا ہو اسمیں انکو پڑھائیے لکھائیے اور قوم کی خدمت کیجئے ، اگر آپ مستورات نے ڈاکٹری کی لائن اسلئے اختیار کی تاکہ مسلم عورتیں غیر مردوں کے سامنے بے پردہ ہونے سے بچ جائیں تو انشاءاللہ یہی آپکے لئے دنیا وآخرت کا عظیم سرمایہ بنجائیگا،

میں اپنے دعوی پر دلیل کیلئے مختصرا فتاوی قاضی خاں اور شامی کی کی ایک عبارت پیش کرتا ہوں جس سے عورت ڈاکٹر کی اہمیت کا علم ہوگا

امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع،
(کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الیہ ومالا یحل لہ،ج:۵،ص:۳۲۷،دارالفکر)
خلاصہ اسکا یہ ہیکہ اگر عورت کے ایسی جگہ پھوڑا ہو جسکو دیکھنا مرد کیلئے حلال نہیں تو اسکو نہ دیکھے، تو اگر کوئی ایسی عورت موجود ہو جو علاج کرسکے تو وہ علاج کرے ، اور اگر کوئی عورت نہ ہو جو علاج کرسکے تو اگر زیادہ تکلیف بڑھ جانیکا یا عورت کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو تو اب اس جگہ کو مرد دیکھ سکتا ہے جس جگہ پھوڑا ہے اور اسکا علاج کرسکتا ہے، اس سے آگے اپنی نگاہ نہ بڑھائے،
علامہ شامی فرماتے ہیں
وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل.”
(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج:۶،ص:۶۷۰،سعید)
اگر عورت کے ستر کے کسی حصہ کا علاج کرنا ہے تو کسی عورت کو اسکا علاج سکھائے وہ علاج کرے، اگر کوئی ایسی عورت نہ ملے اور علاج نہ ہونے سے عورت کی ہلاکت کا یا مرض کی شدت کا ڈر ہو تو اب مرد اس جگہ کا علاج کرسکتا ہے لیکن تمام بدن کو ڈھانک دے اور صرف اتنی ہی جگہ کھولے جہاں کا علاج کرنا ہے،

ان عبارات آپکو معلوم ہوگیا ہوگا کہ لیڈی ڈاکٹر کا ہونا کتنا ضروری ہے؟ مرد سے علاج کرانا عورت کیلئے تھی جائز ہے جبکہ لیڈی ڈاکٹر نہ ہو، اور عورت کی جان کو خطرہ ہو ، اسلئے اپنی قوم کی فکر کیجئے اپنی ماؤں بہنوں کی فکر کیجئے اور اپنی لڑکیوں کو ڈاکٹری کے شعبے سے منسلک کیجئے اللہ اسپر بڑا اجر دینگے،
لیکن اسمیں بھی دھیان رہے اللہ کے احکامات نہ ٹوٹیں مکمل شریعت کی پاسداری کے ساتھ پردے کے ساتھ اس کام کو انجام دیں، غیر مذہب والوں سے تعلقات نہ جوڑیں مرتد نہ بنیں، اپنی ایمانی ذمہ داری کو سمجھیں اور اللہ کا خوف دل میں پیدا کریں اور یہ اللہ کا خوف پیدا ہوگا علماء حقہ سے رابطہ کرنے سے دینی باتیں سننے سے پڑھنے سے، مالدار لوگ اپنے پیسے کو شادیوں پر اور فضولیات میں خرچ کرنے سے اچھا ہے انکی تعلیم پر خرچ کیا جائے،

اسیطرح قوم کے سرمایہ داروں کو لڑکیوں کیلئے کالجز اور میڈیکل کالجز کے قیام کی طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ ہماری بچیاں مرتد نہ ہوں اور باحجاب ہوکر شریعت کے دائرے میں وہ اپنی تعلیم مکمل کرسکیں، سرمایہ دار حضرات اپنے سرمایہ کو اسطرف لگائیں یا جو اسکی کوشش کررہے پیں انکا ساتھ دیں ان سے جڑیں انکے کاتھ مضبوط کریں

وماعلینا الاالبلاغ

No Comments

Leave a Reply