Mufti Muhammad Ataullah Samiee

Mufti Muhammad Ataullah Samiee

عالمہ عورت بمقابلہ عام عورت

عالمہ عورت بمقابلہ عام عورت

مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی معہدالشریعة الاسلامیہ موانہ میرٹھ یوپی الہند
www.atasamiee.in

معاشرے میں عالمہ عورت کو بحیثیت بیوی اور بہو عام طور پر زیادہ پسند نہیں کیا جاتا، حالانکہ وہ دینی علم کی دولت رکھتی ہے، مگر اس کے کچھ اسباب ہیں جو لوگوں کو اس سے گریز پر مجبور کرتے ہیں۔
اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ عالمہ عورت شادی کے بعد شوہر کے گھر والوں کے ساتھ ایک مہذب اور بااخلاق بہو جیسا سلوک نہیں کرتی۔ بعض اوقات وہ علم کی بنیاد پر خود کو برتر سمجھتی ہے، دوسروں کو کم تر جانتی ہے، اور گھریلو ذمہ داریوں کو کم اہمیت دیتی ہے۔ ساس، سسر کی خدمت یا گھریلو مشوروں کو قبول کرنا وہ اپنے وقار کے خلاف محسوس کرتی ہے، اسی طرح انکے اندر علم کی وجہ سے بڑائی کا ہونا ، علم کی وجہ سے امتیازی شان کی چاہت کا ہونا، علم کی وجہ سے مخدوم  بننے کی چاہت کا ہونا، سسرال میں کسی کو اہمیت نہ دینا، جیسی خرابیاں موجود ہوتی ہیں،
نتیجتاً گھر میں ٹھنڈک کے بجائے ایک عجیب سا کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں سادہ مزاج، بے پڑھی لکھی عورت اکثر عاجزی، بردباری اور خدمت گزاری میں آگے ہوتی ہے۔ وہ شوہر کے لیے راحت اور سسرال کے لیے سکون کا باعث بنتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ لڑکی کو عالمہ بنانا حرام نہیں ہے جائز ہے لیکن علم عورت کو اگر نرم دل، عاجز اور وفادار بنائے تو وہ نعمت ہے، لیکن اگر علم دین کی ڈگری سے غرور، تنہائی پسندی اور بے لچک طبیعت پیدا ہو، تو پھر لوگ ایسے رشتوں سے گھبراتے ہیں۔ اس لیے پسند نہ کیے جانے کی وجہ خود “علم” نہیں، بلکہ “علم کے بعد رویہ” ہے۔
عورت کیلئے علم دین اتنا حاصل کرنا فرض ہے ہے کہ وہ قرآن درست پڑھتی ہو نماز روزہ کی پابند ہو بااخلاق ہو شوہر اور اسکے رشتے داروں کے ساتھ کم ازکم ایک مہذب انسان کا سا سلوک کرتی ہو اور شریعت میں یہی مطلوب بھی ہے اسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے “طلب العلم فریضة علی کل مسلم وفی روایة مسلمة” میں بیان فرمایا اور اتنا سب کچھ اسکو قرآن پڑھادینے اور بہشتی زیور صحیح طرح سے پڑھادینے سے آجاتا ہے،
مکمل عالمہ کا کورس کرانا اور باضروری نہیں
عورت چونکہ ناقص عقل ہے علم دین سے اسکے اندر عاجزی کی بجائےتعلی پیدا ہوجاتی ہےجو اسکے لئے اور دوسروں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے

No Comments

Leave a Reply